نیشنل کھیر تھر پارک سے حب چوکی تک زمین بحریہ ٹاؤن کے زیر قبضہ ہونے کا انکشاف

موقر سندھی اخبار عوامی آواز نے اپنی رپورٹ میں سپریم کورٹ کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کا سروے کرنے والی کمیٹی کے رکن محمود اختر نقوی کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے پاس 16 ہزار نہیں بلکہ 2 لاکھ 31 ہزار ایکڑ زمین زیر قبضہ ہے۔

چند دن قبل سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کیس کی ہونے والی سماعت میں ڈیویلپر کمپنی کے وکیل نے بتایا کہ تھا ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی ( ایم ڈی اے) نے بحریہ ٹاؤن کو 16 ایکڑ زمین دی ہے، جس میں سے تاحال کمپنی کو 12 ہزار ایکڑ کے قریب زمین دی جا چکی ہے۔

بحریہ ٹاؤن کو سروے کے بغیر زمین دیے جانے کا انکشاف، سپریم کورٹ نے سروے رپورٹ طلب کرلی

مگر بحریہ ٹاؤن کے وکیل کے مذکورہ دعوے کے برعکس سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف درخواست دائر کرنے والے سماجی رہنما محمود اختر نقوی کا دعویٰ ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے مجموعی طور پر 2 لاکھ 31 ہزار ایکڑ زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔

روزنامہ عوامی آواز نے اپنی رپورٹ میں محمود اختر کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بحریہ ٹاؤن نے نیشنل کھیر تھر پارک اور حب چوکی تک اپنا قبضہ بڑھالیا ہے اور مذکورہ مقامات تک موجود تمام عمارتوں اور گھروں سے بحریہ ٹاؤن ہی فیس وصول کرتا ہے۔

سندھ حکومت نے بحریہ ٹاؤن سے 460 ارب روپے کی رقم وصولی کے لیے دعویٰ دائر کردیا  

رپورٹ میں بتایا گیا کہ بحریہ ٹاؤن اولڈ نے 40 ہزار، بحریہ ٹاؤن 2 نے 50 ہزار اور بحریہ گرین نے 55 ہزار ایکڑ زمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور مجموعی طور پر بحریہ ٹاؤن نے نیشنل کھیر تھر پارک سے لے کر حب چوکی تک 2 لاکھ 31 ہزار ایکڑ زمین کو اپنے زیر قبضہ کر رکھا ہے۔

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے بحریہ ٹاؤن کا اجازت نامہ منسوخ کردیا، مالکان پر مقدمات دائر

تاہم محمود اختر نقوی کے مذکورہ دعوے کے حوالے سے کسی اور دوسرے شخص یا پارٹی نے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ محمود اختر نقوی بحریہ ٹاؤن کے خلاف عدالت میں جانے والے ابتدائی چند شخصیات میں ایک ہیں اور سپریم کورٹ نے انہیں سروے کمیٹی میں بھی شامل کر رکھا ہے۔

سپریم کورٹ نے سندھ حکومت سے بحریہ ٹاؤن کی سروے رپورٹ 23 نومبر تک طلب کر رکھی ہے۔

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے بحریہ ٹاؤن کا اجازت نامہ منسوخ کردیا، مالکان پر مقدمات دائر