نگران وزیر وزیراعلیٰ سندھ کا گورکھ ہل اسٹیشن منصوبے میں بے ضابطگیوں کا نوٹس، رپورٹ طلب

نگران وزیراعلیٰ سندھ نے گورکھ ہل پراجیکٹ میں بے ضابطگیوں کا نوٹس لیتے ہوئے فنڈز اور اثاثوں کے بے دریغ استعمال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی۔

ترجمان کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق نگران وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ پراجیکٹ کی گاڑیوں، ریزارٹ اور پیٹرول کے استعمال میں بہت بے ضابطگیاں سامنے آرہی ہیں۔

مقبول باقر کے مطابق پراجیکٹ کی گاڑیوں پر 18 ڈرائیورز مامور ہیں لیکن وہ ڈیوٹی پرائیویٹ لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گورکھ ہل ریزارٹ میں 12 باورچی رکھے گئے ہیں اس کے باوجود پراجیکٹ کی بہتری کے لیے کام نہیں ہورہا،پراجیکٹ میں140 ملازمین ہیں تاہم کوئی بھی کام نہیں کرتا۔

نگران وزیراعلیٰ سندھ نے گورکھ ہل پراجیکٹ ڈائریکٹر کو ایکسپلینش اور گورکھ ہل پراجیکٹ پر مکمل تحقیق و تفتیش کے لیے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی ہے۔

انہوں نے کہاکہ گورکھ ہل پراجیکٹ فنڈز عوام کی تفریح و سہولت کے لیے ہیں نہ کہ چند من پسند لوگوں کو نوازنے کے لیے،فنڈز کا غلط استعمال کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ سطح سمندر سے 5ہزار 688فٹ کی بلندی پر واقع گورکھ ہل اسٹیشن مشہور کیرتھر پہاڑی سلسلوں کے دامن میں واقع ہے اور ان پہاڑیوں کا سلسلہ مغربی سندھ سے بلوچستان تک پھیلا ہوا ہے۔ دادوشہر سے تقریباً 100 کلو میٹر کے فاصلے پر پہاڑیوں کے اوپر موجود گورکھ ہل اسٹیشن کا مقام تقریباً دس کلو میٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں سہولتوں کا فقدان ہے۔

گورکھ ہل اسٹیشن کب اور کیسے بنا اس سے متعلق کوئی حتمی معلومات تو دستیاب نہیں لیکن بعض مورخین اور سیاحت میں دلچسپی رکھنے والی شخصیات کے مطابق سندھ کے گرم ترین علاقے میں موجود اس ٹھنڈے مقام کو پہلی بار1860 میں انگریز سیاح جارج نے دریافت کیا تھا لیکن اس وقت وہاں پہاڑیوں کے اوپر صرف ہموار زمین تھی جسے آگے چل کر سیاحتی مقام میں تبدیل کردیا گیا۔

گورکھ ہل اسٹیشن کی تعمیر و ترقی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی ترجیحات میں شامل تھی جس کی وجہ سےانہوں نے 1989ء میںگورکھ ہل اسٹیشن منصوبے کو شروع کیا لیکن بدقسمتی سے 26 سال گزرجانے اور تیسری بار پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے باوجود گورکھ ہل اسٹیشن پر وہ سہولتیں میسر نہیں جو سیاحوں کو متوجہ کر سکیں۔

مقامی افراد کے مطابق ایک زمانے میں یہاں گرکھ نامی ایک ہندو عورت رہتی تھی جس کی وجہ سے اس مقام کا نام گورکھ پڑا جبکہ کچھ افراد کا کہنا ہے کہ یہاں کسی زمانے میں ہندو جوگی سری گورکھ ناتھ رہتا تھا جس کے بعد اس مقام کو گورکھ کہا جاتا ہے۔ کچھ ماہرین کے مطابق گرکھ فارسی، بلوچی اور براہوی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی بھیڑیا ہے اور کسی زمانے میں پہاڑیوں پر بھیڑیوں کی کثرت تھی جس کی وجہ سے اس سیاحتی مقام کا نام گورکھ پڑا۔

سیاحتی مقام تک پہنچنے کیلئے 90 کلو میٹرز کا راستہ دشوار اور پہاڑیوں پر بنا ہوا ہے جبکہ شہر سے 35 کلو میٹر کے بعد کسی بھی جگہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں کوئی بھی اسٹاپ نہیں بنایا گیا۔

گورکھ ہل اسٹیشن پر چیئرلفٹ، رہائشی اور کھانوں کے ہوٹلز سمیت سیکورٹی اور صحت سے متعلق کوئی بھی سہولت دستیاب نہیں ہے۔

نجی طور پر بنائے گئے ہوٹل میں غیر معیاری کھانوں سمیت رہائش کیلئے مہنگے داموں دستیاب کمروں کی وجہ سے سیاحوں کو سخت مشکلات درپیش ہوتی ہیں جبکہ جدید دور کی سہولتوں کے عادی سیاح دنیا سے رابطے سے کٹ جاتے ہیں کیوں کہ وہاں ابھی تک کسی بھی موبائل یا انٹرنیٹ کمپنی نے اپنے نیٹ ورک کا آغاز نہیں کیا ہے اور نہ ہی حکومت نے اس حوالے سے کوئی توجہ دی ہے۔

گورکھ ہل اسٹیشن سہولیات سے محروم ہونے کے باوجود سندھ سمیت ملک بھر بلکہ بیرون ملک رہنے والے سیاحوں کے لئے بھی کشش رکھتا ہے۔ گورکھ ہل اسٹیشن پر سخت گرمی کے دنوں میں بھی برفباری اور ٹھنڈک پڑنے کی وجہ سے یہ سیاحتی مقام لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ حکومت کی بے توجہی کے باوجود کئی نجی کمپنیاں کراچی سے گورکھ ہل اسٹیشن تک سیاحوں کو پہچانے کا انتظام کرتی ہیں جب کہ تمام کمپنیوں کے اخراجات بھی مناسب ہوتے ہیں۔