سندھ کی مٹی میں پیدا ہونے والے تنویر عباسی جنہیں اسلام آباد کی مٹی میں دفنایا گیا
ڈاکٹر تنویرعباسی سندھی،اردو، انگریزی اور سرائیکی زبانوں میں مہارت رکھتے تھے، انھوں نے غزلیں اور نظمیں بھی بڑے خوبصورت انداز میں تخلیق کی ہیں۔ ان کی ایک اور نمایاںخوبی یہ تھی کہ وہ فارسی، ہندی اور فرنچ زبانوں کے بارے میں بھی اچھی جانکاری رکھتے تھے اور ان زبانوں کا ادب بھی پڑھ رکھا تھا۔
ڈاکٹر تنویر عباسی خیرپور میرس کے ایک گاؤں سوبھو دیرو میں 7 دسمبر 1934 میں پیدا ہوئے، ان کے والد کلکٹر تھے۔ تنویر عباسی نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی اور اس کے بعد ہیرانند اکیڈمی اور این جے وی ہائی اسکول کراچی سے، مزید تعلیم ڈی جے سائنس کالج کراچی سے حاصل کرنے کے بعد وہ ایم بی بی ایس کرنے کے لیے لیاقت میڈیکل کالج حیدرآباد گئے اور 1960 میں ڈاکٹرکی ڈگری حاصل کی۔انھوں نے شادی بھی ایک لیڈی ڈاکٹر قمر عباسی سے کی۔ دونوں نے مل کر سندھ کے نام سے ایک اسپتال خیرپور میرس میں قائم کیا اور اپنے علاقے کے لوگوں کو علاج و معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے لگے۔
انھوں نے اپنی شاعری کی ابتدا 1953 سے کی تھی جب وہ کالج میں پڑھتے تھے اور شاعری میں انھوں نے شیخ محمد ابراہیم خلیل سے بڑی مدد لی تھی۔ ان کی لکھی ہوئی وائی، دوہا، نظم میں بڑی مٹھاس ہوتی تھی ، ان اصناف سخن میں انھوں نے بڑی وسعت پیدا کی تھی ،جب کہ غزل کہنے میں انھیں درجہ کمال حاصل تھا، اور سامعین جب ان سے فرمائش کرتے تو وہ ہر بار نئے انداز سے نئی غزل سناتے تھے۔
ان کی پہلی شاعری کی کتاب 1958 میں شایع ہوئی،جب کہ دوسری کتاب 1970 میں اور تیسری کتاب 1977 میں اور چوتھی کتاب 1985 میں، پانچویں1989جب کہ دیگر کئی کتابیں 1982، 1983 اور 1984 میں شایع ہوئیں۔
انھوں نے ساری عمر ادیبوں اور تعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان وقت گزارا اور ایسے انسٹیٹیوٹ اور آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر کام کیا جنھوں نے ادبی اور تعلیمی سرگرمیوں کے لیے خودکو وقف کر رکھا تھا، وہ سندھی ادبی سنگت کے جنرل سیکریٹری کے طور پر 1966تک کام کرتے رہے پھر رائٹرز گلڈ کے سیکریٹری، لندن کی پوئٹری سوسائٹی کے ممبر، ایڈوائزری بورڈ آف سندھیالوجی کے ممبر، بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکریٹری بورڈ سکھر کے ممبر، اکیڈمی آف لیٹرز میں سندھ کی گورننگ باڈی کے ممبر بھی رہے تھے۔
زندگی کے آخری ایام میں وہ اپنے بیٹے سرمد کے پاس اسلام آباد چلے گئے اور وہاں پر ہی 25 نومبر 1999 میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ انھوں نے مرنے سے 15 برس قبل اپنے گھر والوں سے کہا تھا کہ میری ڈیڈ باڈی لیاقت میڈیکل کالج جامشورو کے حوالے کی جائے تاکہ میڈیکل اسٹوڈنٹس اس پر اپنی پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرسکیں۔ نجانے کیوں ایسا نہیں ہو سکا اور ان کی لاش کو 6 دن کے بعد mortuary سے نکال کر ورثا کے حوالے کردیا گیا اور اسلام آباد کے ایک قبرستان میں ان کی تدفین کردی گئی۔ اسے آپ ایک المیہ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ان کے چاہنے والے اور رشتے دار ان کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے لیے اسلام آباد نہیں جاسکتے، جس کی وجہ سے ان کی یادوں کو بھلا دیا گیا ہے۔ ان کے بعد ایسا کوئی نہیں ہے جو ان کے کام اور یادوں کو سمیٹ لے۔