کیا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سندھ میں پیپلزپارٹی کی انتخابی جیت کا سبب بن رہا ہے؟

سندھ کی اکثر اور خصوصی طور پر دیہی علاقوں کی خواتین کو ظالمانہ انداز میں دبایا جاتا ہے اور گھر کے خاندان کا پورا نظام عام طور پر مردوں کے کنٹرول میں ہوتا ہے خواتین کا کردار کھیتی باڑی میں مرد کے ساتھ ہاتھ بٹانا، مال مویشی کو سنبھالنا، کھانا پکانا صفائی کرنا بچے پالنا اور شوہر سمیت خاندان کے دیگر افراد کی دیکھ بھال کرنا، شوہر کو کھانے یا چائے کا کپ دینے میں ایک منٹ بھی دیر نہ کرنا جیسے معاملات تک محدود ہیں۔

آزادی اظہار اور حق رائے دہی جیسے فیصلوں میں وہ کبھی خود مختار نہیں رہی ہے گھر کے مرد سربراہ کا جو بھی فیصلہ ہو چاہے وہ ان کے مفاد میں ہو یا خلاف اس پر چپ چاپ لبیک کہنا ہے ۔

سجاول ضلع جو خواندگی میں سندھ کا سب سے پسماندہ ضلع ہے, یہاں خواندگی کا تناسب پچیس اشاریہ بارہ فیصد ہے, جس میں خواتین کی خواندگی کا تناسب سولہ اشاریہ چوالیس فیصد ہے اور مردوں میں خواندگی کا تناسب تینتیس اشاریہ چودہ فیصد ہے.

ضلع کی ایک قومی اسمبلی نشست ہے, این اے حلقہ 225 میں رجسٹرڈ ووٹروں کی کل تعداد چار لاکھ تیئیس ہزار ستر ہے ۔ جس میں خواتین رجسٹرڈ ووٹروں کی کل تعداد ایک لاکھ نو ہزار چھ سوساٹھ ہے جبکہ 2018 کے عام انتخابات کے دوران رجسٹرڈ ووٹروں کی کل تعداد تین لاکھ اڑتیس ہزار آٹھ سو چونسٹھ تھی 2018 کے عام انتخابات میں ایک لاکھ بیانوے ہزار دو سو بھتر مردوں نے ووٹ کاسٹ کیئے اور ایک لاکھ چھپن ہزار پانچ سو بیانوے خواتین اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

وہاں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ پینتالیس فیصد اور مردوں میں ٹرن آؤٹ پچپن فیصد رہا۔

سجاول ضلع میں دیہی خواتین اپنا قیمتی ووٹ کاسٹ تو کرتی ہیں مگر فرسودہ سوچ اور مردانہ حاکمیت کے سبب خواتین کا ووٹ ان کی مرضی سے نہیں بلکہ کنبہ کے فرد کی مرضی سے کاسٹ ہوتا ہے ۔

بلدیاتی انتخابات یا عام انتخابات ہوں ان میں خواتین ووٹوں کا کردار امیدوار کی جیت میں بہت اہم ہوتا ہے, اس لیے کہتے ہیں خواتین کا ووٹ مستقبل کی تشکیل ہے اور جب خواتین ووٹ ڈالتی ہیں تو قوم کا مقدر بناتی ہیں۔ اسی بنا پر خواتین کے ایک ایک ووٹ کی بڑی اہمیت ہے مگر دیہی خواتین کو اپنا ووٹ اپنی خواہش کے مطابق استعمال کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ اپنے خاندان کے مرد کی منشا کے مطابق استعمال کرنا ان کے لئے لازمی ہوتا ہے ۔

حق رائے دہی کے استعمال میں خواتین کو مکمل خودمختاری اور آزادی ہونے چاہئے جو کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہوتی ہے مگر اس کے برعکس جو ہمارا وسیع تجربہ رہا ہے جیسے سندھ کے دیگر علاقوں کی طرح سجاول ضلع کے دیہی علاقوں میں خواتین حق رائے دہی کے استعمال میں خاندان کا مرد جس امیدوار کو ووٹ دینے کا خواتین کو حکم کرے گا خواتین لازمی اس ہی امیدوار کو ووٹ دے گی چاہے اس امیدوار کو وہ جانتی ہو یا نہیں۔

اسی ظالمانہ رسموں سے خواتین کے حقوق پائمال ہونا ایک معمول بن گیا ہے فرسودہ سوچ اور روایات کئی دہائیوں سے خواتین کو اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق ووٹ ڈالنے سے محروم کر رہی ہیں ۔

سماجی شخصیت اقبال جاکھرو منصور جلالانی اور خدابخش بروہی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ صرف دیہی خواتین نہیں بلکہ سجاول، ٹھٹھہ سمیت دیگر چھوٹے شھروں کی خواتین بھی اپنے کنبہ کے سربراہ کی من چاہی شخصیت کو ہی ووٹ دیتی ہیں کیونکہ گھر چلانے والا مرد ہی ہوتا ہے اور گھر کے سب افراد ان کی مرضی پر منحصر ہوتے ہیں پھر وہ انتخابات سے منسلک ہو یا کسی اور مسئلے پر ہو فیصلہ وہی ہو گا جو گھر کا سربراہ کرے گا اور یہ ہماری ریت رسم بھی ہے۔

اسی حوالے سے خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی سماجی شخصیت مسز حمیراعلی کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں دیہی علاقوں میں ناخواندگی کا تناسب اتنا زیادہ ہے کے خواتین تو اپنی جگہ مردوں کو بھی پتا نہیں ہوتا کے کون سا شخص کون سی جماعت سے انتخابات لڑ رہا ہے ہمارے ہاں مردانہ حاکمیت والا معاشرہ ہے یقیناً ان کی جو خواتین ہے وہ ابھی تک اپنے خاندان کے لئے کوئی فیصلہ نہیں کر پاتیں تو پھر ووٹ جو پانچ سال کے بعد انتخابات میں کرتے ہیں اس کا ووٹ بہت اہمیت کا حامل ہے وہ بھی اپنی خواہش اور خود مختاری کے مطابق استعمال نہیں کر سکتیں اور اگر کسی علاقے میں پڑھے لکھے لوگ مل بھی جائیں تو وہاں پر آگاہی نہیں ہے ان لوگوں کو اس چیز کے بارے میں پتا نہیں ہے کہ کون سا شخص کون سی جماعت کی طرف سے ہمارے علاقے کے لئے انتخابات میں کھڑا ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ناخواندگی, مردانہ حاکمیت اور آگاھی کی کمی کی وجہ سے ہماری خواتین اپنی مرضی سے اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کر سکتیں۔ ہر ایک کی اپنی خواہشات ہوتی ہے کہ میں بھی ایک خاتون اور ایک عورت کے ناطے میری بھی اپنی خواہشات ہیں میں بھی یہ ہی سوچوں گی کے ہمارے علاقے میں ترقیاتی کام ہو بنیادی سہولیات موجود ہونی چاہیے وہ آنے والا شخص جس بھی جماعت سے تعلق رکھتا ہو مگر میں اپنی آزاد خواہش کے مطابق اس شخص کو ووٹ دوں گی جو ہمارے لیے اور ہمارے علاقے کی ترقی کے لیے کام کرے گا اسی طرح تمام خواتین بھی یقیناَ ایسا ہی سوچتی ہیں جو بھی شخص انتخابات میں کھڑا ہو رہا ہے وہ کم سے کم ان کے بنیادی حقوق اور بنیادی سہولیات کے لئے کام کر سکے ۔

*حمیرا علی کا مزید کہنا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی بات کریں تو ان کی طرف سے مختلف علاقوں میں آگاھی مہم چلائی جاتی ہے پیغامات پہنچائے جاتے ہیں، لیکن وہ بھی دیہی علاقوں میں گھر گھر نہیں پہنچ پا رہے ہیں ۔ ہمیں ہر ایک کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا جن کا سیاسی،سماجی یا کسی اور ادارے سے تعلق ہے وہ دیہی علاقوں میں لوگوں کو بتا سکے کہ ووٹ دینا کیوں ضروری ہے اور کس کو کس لئے ووٹ دینا چاہئے

ہندو پنچائت سجاول کے صدر اور سماجی شخصیت ڈاکٹر ہوتچند کیشوانی نے بتایا کے جب تک خواتین میں تعلیم نہیں آتی تب تک شعور نہیں آئے گا تعلیم ہی شعور کی سیڑھی ہے اسی سے ہی عورت مستحکم ہوگی اور فیصلہ کرنے کی قوت کے ساتھ اس میں اپنی کمائی اور اپنا اسٹیٹس بحال کرنے کی صلاحیت پیدا ہو اس سلسلے اب جب اقلیتی کمیونٹی میں جب سے تعلیم بڑھی ہے تب سے ان میں اپنے رائے کی صلاحیت پیدا ہوئی ہے گزشتہ دس سالوں ہماری کمیونٹی کے عورت اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کا رحجان بڑا ہے اور ووٹ کے معاملے میں بھی وہ آزاد ہے جس کو چاہے اس کو انتخابات میں ووٹ دیتی ہے۔اس لئے خواتین کی تعلیم پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔

اسی سلسلے میں *ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر سجاول افتخار حسین* کا کہنا تھا کہ سیمینار کے ذریعے ووٹ کی اہمیت اور اس کی کاسٹ کے متعلق الیکشن کمیشن کی جانب سے آگاھی مہم جاری ہے بوائز اور گرلز اسکولز و کالجز میں سیمنار کرکے ووٹ کے متعلق طلبہ کو آگاہی دینے کا سلسلہ جاری ہے اور ضلعی سطح پر ووٹر ایجوکییشن کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں خواتین میمبرز شامل ہیں جو ووٹ کے سلسلے میں دیہی علاقوں کی خواتین تک آگاہی پیغامات پہنچا رہے ہیں اور اب تک بارہ ہزار سے زائد ووٹرز کو آگاہی دینے کے سیشنز ہو چکے ہیں اور ایک سو سے زائد خواتین نے مختلف سیشن میں حصہ لیا اور انہیں ووٹ کی اہمیت کے متعلق آگاہی فراہم کی گئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا کام صاف شفاف انتخابات کرانا اور ووٹروں کو زیادہ سے زیادہ انتخابی عمل کے میدان میں شامل کرانا ہے تاکہ ہر ایک شخص اپنا قیمتی ووٹ کاسٹ کر سکے, اس میں خواتین کو یقینی ووٹ کاسٹ کرانے کی آگاہی فراہم کی جا رہی ہے ۔

یہاں ایک اور قابل ذکر بات ہے کہ جب سے پیپلز پارٹی کی حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا ہے تب سے خواتین کے شناختی کارڈ بنانے کے رحجان میں تیزی اور اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف سندھ میں پیپلز پارٹی کے لئے خواتین ووٹرز کی تعداد بھی بڑھی ہے ۔

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت وظیفہ لینے والی خواتین کا کہنا ہے پہلے ہم ووٹ کاسٹ نہیں کرتے تھے مگر جب سے ہمیں وظیفہ ملنا شروع ہوا ہے تب سے ہم ہر انتخابات میں اپنا ووٹ ضرور کاسٹ کرتے اور ہم بی بی شھید کے امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں۔

پچاس فیصد خواتین اب بینظیر انکم سپورٹ کا وظیفہ لینے کے چکر میں وہ چاہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی کا امیدوار کامیاب ہو اس لیئے وہ اپنے مردوں کے حکم نہ مانتے ہوئے اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیتی ہیں پھر چاہے ان کے مدمقابل کتنا بھی معزز دانشور ایماندار یا ترقی پسند شخصیت کیوں نہ ہو۔

اب تو اکثر دیہی علاقوں میں پیپلز پارٹی کا انتخابی مہم کے دوران جلسوں ریلیوں اور کارنر میٹنگز میں اس مالی اسکیم کا ذکر کیا جاتا ہے اور پارٹی کی کامیابی کی صورت میں اس اسکیم کو جاری رکھنے اور وظیفہ میں اضافہ کرنے کا کہے کر ووٹروں کو پارٹی امیدوار کو ووٹ دینے کے لئے قائل کیا جاتا۔