ضلع گھوٹکی کی سیاست کا جائزہ، مہر اور لونڈ قبائل کی موجودگی میں باقی زیرو کیوں؟

سال 2023 کی مردم شماری کے مطابق ضلع گھوٹکی کی کل آبادی تقریباً 18 لاکھ ہے جبکہ الیکشن کمیشن کے مطابق وہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 09 لاکھ ہے، ضلع گھوٹکی پانچ تحصیلوں ڈھرکی، اوباڑو، میرپورماتھیلو، گھوٹکی اور خانگڑھ مشتمل ہے، انتظامی حوالے سے ضلع گھوٹکی میں 2 میونسپل کمیٹیز جبکہ 4 ٹاؤن کمیٹیز شامل ہیں، گھوٹکی میں قومی اسمبلی کی دو جبکہ صوبائی اسمبلی کی چار نشستیں ہیں۔ سال 1993 میں گھوٹکی کو سکھر سے الگ کر کہ ضلع کا درجہ دیا گیا تھا۔
ضلع گھوٹکی کی سیاست پر مہر اور لونڈ قبائل ہمیشہ سے حاوی رہے ہیں اور تاحال یہ سلسلہ برقرار ہے، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مہر اور لونڈ قبائل کے سرداروں کی سیاسی کہانی تقریباً 60 سال طویل تاریخ پر محیط ہے، یہ کہانی تو 1993 سے بھی قبل کی ہے جس وقت تحصیل گھوٹکی ضلع سکھر میں شامل ہوا کرتا تھا،1962 میں جب قومی اسمبلی کے امیدواروں کے منتخب ہونے کا سلسلہ جاری ہوا تب سے اب تک گھوٹکی ضلعی پر سیاسی راج مہر اور لونڈ قبائل کے سردار ہی کر رہے ہیں۔
سال 1962 میں قومی اسمبلی کے حلقے این ڈبلیو 69 سکھر سے پہلی بار منتخب ہونے والے قومی اسمبلی کے امیدوار کوئی اور نہیں بلکہ مہر قبیلے کے چیف سردار غلام محمد خان مھر تھے، جس نے اپنے حریف لونڈ قبیلے کے چیف سردار نور محمد خان لونڈ کو شکست دے کر ایوان بالا کے فلور تک رسائی حاصل کی جس کے بعد مہر اور لونڈ قبائل کی سیاست کا باقاعدہ آغاز ہوا اور یہ سلسلہ تاحال برقرار ہے۔
سال 1962 سے 2018 تک مہر اور لونڈ قبائل کے سردار ہی باری باری قومی اسمبلی کی نشستوں پر منتخب ہوتے آ رہے ہیں، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ قومی اسمبلی کی نشستوں پر اپنا اثر و رسوخ رکھنے کے ساتھ ساتھ 1970 سے مہر اور لونڈ قبائل کے سردار سندھ کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر بھی حاوی ہونا شروع ہوئے جس کے بعد یہ سلسلہ یوں ہی چلا آ رہا ہے اور تاحال برقرار ہے۔
سال 1962 سے 1993 تک مہر اور لونڈ قبائل کے سردار 2 سیاسی گروپوں کی شکل میں قومی اورصوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں پر راج کرتے رہے، جس کے بعد 1993 میں جب گھوٹکی کو ضلع کا درجہ دیا گیا تو اس وقت مہر اور لونڈ گروپ کی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں کیونکہ گھوٹکی کی سیاست پر راج تو پہلے سے ہی مہر اور لونڈ قبائل کے سرداروں کا ہی تھا لیکن جب گھوٹکی کو ضلع بنایا گیا تب تو پورا ضلع ہی مہر اور لونڈ قبائل کی سیاسی سلطنت بن گیا تب سے اب تک یہی دونوں مہر اور لونڈ قبائل ضلع گھوٹکی پر راج کرتے آ رہے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
ضلع کی 60 سالہ سیاسی تاریخ میں لونڈ اور مہر گروپ کے مد مقابل کوئی تیسرا گروپ آیا ہی نہیں، آتا بھی تو کیسے کیونکہ جب بھی تیسرے سیاسی گروپ نے ان دو گروپس کے مدمقابل آنے کی ذرا سی بھی کوشش کی تو جنم لینے سے پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کر ہمیشہ کے لیے نست و نابود ہوگیا، لونڈ اور مہر قبائل کے سرداروں کے مقابلے میں جب تیسرے گروپ نے آنے کی جرئت بھی کی تو دونوں حریف گروپس نے مل کر تیسرے سیاسی گروپ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیاسی طور پر تختہ دار پر لٹکا دیا تاکہ کوئی بھی سیاسی گروپ مھر اور لونڈ قبائل کے سرداروں کے مقابلے میں آنے کی جرئت ہی نہ کر سکے، تاحال کوئی بھی تیسرا سیاسی گروپ ان کے مقابلے میں جنم نہیں لے سکا، 1962 سے لے کر اب تک ڈسٹرکٹ گھوٹکی کے بڑے بڑے قبیلوں کے بڑے بڑے سرداروں نے بھی اپنی سیاست کا آغاز لونڈ اور مہر گروپ کے پلٹ فارم سے ہی کیا، اگرچہ سیاسی پارٹیاں تبدیلی ہوتی رہی ہیں لیکن ان کے مد مقابل کبھی بھی تیسرا گروپ وجود میں نہیں آیا، 1962 سے اب تک قومی اسمبلی کی نشستوں پر مہر اور لونڈ قبائل کے سردار ہی براجمان رہے ہیں جبکہ دو مرتبہ عبدالحق عرف میاں مٹھو پاکستان پیپلز پارٹی کے پیلٹ فارم سے ایوان بالا کے نمائندہ منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے جبکہ ایک بار سیف اللہ خان درایجو بھی رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور مہر قبیلے کے چیف سردار غلام محمد خان مھر 4 بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے۔
دوسری جانب مہر گروپ کے حریف لونڈ قبیلے کے چیف سردار حاجی نور محمد خان لونڈ 5 بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہو کر سب سے بازی لے گئے، صرف اتنا نہیں بلکہ مہر قبیلے کے چیف سردارغلام محمد خان مھر کے بھائی علی انور خان مھر 4 بار ممبر آف سندھ اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ علی انور خان مہر کے تینوں بیٹے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر ہیمشہ براجمان رہے ہیں، جن میں سے علی محمد خان مھر 4 بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے ساتھ ساتھ 2002 میں پی ایس 06 گھوٹکی سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہو کر وزیر اعلیٰ سندھ کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔
دوسری جانب علی انور خان مھر کے دوسرے بیٹے علی گوھر خان مھرجہنیں گھوٹکی کی سیاست کا بے تاج بادشاہ کہا جاتا ہے جو مھر قبیلے کے چیف سردار غلام محمد خان مھر کے شاگرد اور سیاسی جانشین سمجھے جاتے ہیں وہ بھی ایک بار رکن قومی اسمبلی جبکہ تین بار رکن سندھ اسمبلی منتخب ہونے کے ساتھ ساتھ ضلع ناظم گھوٹکی بھی رہ چکے ہیں، علی گوہر خان مھر کے دوسرے بھائی علی نواز عرف راجا خان مھر وہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں، ایک بار رکن قومی اسمبلی جبکہ دو بار رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں جبکہ مہر قبیلے کے موجودہ چیف سردار محمد بخش خان مھر بھی ایک بار رکن قومی اسمبلی جبکہ ایک بار رکن سندھ اسمبلی ہونے کے ساتھ ساتھ صوبائی وزیر کھیل بھی رہے چکے ہیں، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ محمد بخش خان مھر کے دوسری بھائی بنگل خان مھر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے فوکل پرسن اور حالیہ دنوں میں ضلع چیئرمین شپ کی سیٹ پر براجمان ہیں جبکہ مہر گروپ کے سیاسی سربراہ علی گوہر خان مھر کے بیٹے حاجی خان مھر بھی سابقہ ضلع چیئرمین شپ کے عہدے سے مستفید ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب اگر مہر گروپ کے حریف لونڈ گروپ کی بات کریں تو لونڈ گروپ کے موجودہ سیاسی سربراہ میر خالد احمد خان لونڈ بھی چار بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے ساتھ ساتھ صوبائی وزیر بھی رہ چکے ہیں جبکہ ان کے بیٹے میر شھباز خان لونڈ میونسپل کمیٹی میرپور ماتھیلو کے سابقہ اور موجودہ چیئرمین ہیں، دوسری طرف میر خالد احمد خان لونڈ کے دوسرے بیٹے نور محمد خان لونڈ سیاسی طور پر اسی طرح سرگرم ہیں جس طرح مہر گروپ کے سردار سرگرم ہیں، لونڈ گروپ کے سربراہ میر خالد احمد خان لونڈ کے کزن بابر علی خان لونڈ پاکستان پیپلز پارٹی ڈسٹرکٹ گھوٹکی کے صدر ہیں جبکہ خالد احمد لونڈ کے بھتیجے افتخار احمد خان لونڈ پاکستان تحریک انصاف کے پی ایس 20 کے امیدوار اور پی ٹی آئی کے ڈپٹی ایڈیشنل سیکرٹری سندھ کے عہد پر فائز ہیں، اگر دوسرے قبیلوں کے سرداروں کی بات کریں تو ان کی سیاست بھی لونڈ اور مہر گروپس کے گرد گھومتی ہوئی دیکھائی دیتی ہے پھر اگرچہ ان میں سے بزدار، ڈھر، پتافی، شر، لغاری اور دھارایجو قبائل کے سردار ہی کیوں نہ ہوں، ضلع گھوٹکی کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے فیصلے بھی مہر اور لونڈ گروپ کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتے، اگر ماضی کو دیکھیں تو 1772 سے اب تک مہر اور لونڈ گروپ کے آشیرواد سے ہی مختلف قبیلوں کے سردار صوبائی نشستوں پر باری باری منتخب ہوتے ہوئے آ رہے ہیں۔
اگر بات کریں ڈھر قبیلے کی تو ڈھر قبیلے کے سردار جام منیر احمد خان ڈھر 1972 پہلی بار پی ایس 04 سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے، ان کے بعد 1977 میں جام عبدالرزاق خان ڈھر نے پی ایس 01 سکھر سے سندھ اسمبلی کے ایوان تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب حاصل کی جبکہ ڈھر قبیلے کے سردار جام مہتاب حسین خان ڈھر کبھی مہر تو کبھی لونڈ گروپ کے آشیرواد سے 6 بار رکن سندھ اسمبلی منتخب ہونے کے ساتھ ساتھ صوبائی وزیر اورسینیٹر بھی رہ چکے ہیں۔
اگر بات کریں دھارایجو قیبلے کی توعلی مراد خان دھاریجو اورجام اکرام اللہ دھاریجو بھی ایک ایک بار رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں جس کے بعد دھاریجو قیبلے کے سردار جام سیف اللہ خان دھاریجو ایک بار رکن قومی اسمبلی جبکہ دو بار رکن سندھ اسمبلی رہ چکے ہیں، اگر بات کریں شر قبیلے کی تو شر قبیلے کے چیف سردار احمد یارخان شر بھی پی ایس ایک سے دو بار رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ احمد یار خان شر کے بعد ان کے سیاسی جانشین میر شہریار خان شر 2018 میں پی ایس 19 اباڑو سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔
اگر بات کریں پتافی قبیلے کی تو وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں، کبھی مہر تو کبھی لونڈ گروپ کے آشیرواد سے پتافی قبیلے کے چیف سردار احمد علی خان پتافی بھی 4 بار ایم پی اے منتخب ہوئے جبکہ ان کے بعد ان کے بیٹے عبدالباری خان پتافی پاکستان پیپلز پارٹی کی پیلٹ فارم سے دو بار رکن سندھ اسمبلی منتخب ہونے کے ساتھ ساتھ صوبائی وزیر کے منصب پر فائز رہے چکے ہیں جبکہ دوسری جانب اگر بات کریں ہم بوزدار قیبلے کی تو بوزدار سردار بھی ایوان سندھ کی زینت بن چکے ہیں۔
بوزدار قیبلے کے خان محمد بوزدار اور غلام مصطفیٰ بوزدار بھی ایک ایک بار رکن سندھ اسمبلی رہ چکے ہیں جبکہ بوزدار قیبلے کے چیف سردار رحیم بخش خان بوزدار بھی مہر اور لونڈ گروپ کے توسط سے چار بار رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔
اگر ہم آخر میں بات کریں لغاری قبیلے کی تو لغاری سردار بھی ایوان سندھ کی زینت بننے کی بھرپور کوشش کرتے رہے ہیں، اگرچہ اس قبیلے کے سردار ایک بار ہی رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے تھے لیکن مہر اور لونڈ گروپ کے سایہ سے یہ بھی مستفید ہوتے رہے ہیں۔
لغاری قبیلے کے سردار میر نادر اکمل خان لغاری ق لیگ کی ٹکٹ پر 2002 رکن سندھ اسمبلی منتخب ہونے کے ساتھ ساتھ صوبائی وزیر کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں، اگر حالیہ دنوں میں موجودہ صورت حال کی بات کریں تو الیکشن کی تاریخ مقرر ہونے کے بعد ضلع گھوٹکی کی سیاست میں اتارو چڑھاؤ کا سلسلہ جاری ہے، سیاسی سرگرمیاں بھی تیز ہوچکی ہیں، ماضی کے دو بڑے حریف اب حلیف بن چکے ہیں۔
ضلع گھوٹکی کی 30 سالہ سیاسی تاریخ میں پہلی بار مہر اور لونڈ قبائل کے سردار یکجا ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہوچکے ہیں آخر ایسا کونسا خطرہ لاحق ہے جس کی وجہ سے ماضی کے دو بڑے سیاسی حریف اب حیلف بن چکے ہیں اور ایک ساتھ چلنے کے ارادے وعزم کر لیے ہیں۔
مھر گروپ کے سربراہ سردار علی گوہر خان مھر اور لونڈ گروپ کے سربراہ میر خالد احمد خان لونڈ اب ایک پیج پرآ چکے ہیں، وہ پیج پاکستان پیپلز پارٹی کا پیج ہے، ہمارے ذرائع کے مطابق اب اس پیج پر مہر اور لونڈ گروپس ساتھ مل کر تیسرے جنم لینے والے گروپ کو سیاسی تختہ دار پر لٹکانے کا اردہ رکھتے ہیں۔
ضلع گھوٹکی کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ تمام قبیلوں کے سردار ایک ہی نعرہ لگا چکے ہیں وہ نعرہ ہے جیئے بھٹو اور روٹی،کپڑا اور مکان کا، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا روٹی کپڑا اور مکان ملتا بھی ہے یا پھر پہلے کی طرح پرانے چورن کو نئی پیکنگ میں بچنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس وقت ڈسٹرکٹ گھوٹکی کے تقریباً تمام قبائلی سردارعلی گوہر خان مھر سے لے کر میر خالد احمد خان لونڈ تک اور محمد بخش خان مھر سے لے کرعبدالباری خان پتافی تک اورعلی نواز خان مھر سے لے کر میر شہریار خان شر تک اور ہالار خان پتافی سے لے کر جام مہتاب حسین خان ڈھر تک
پاکستان پیپلز پارٹی کے سایہ تلے یکجا ہو کر کھڑے ہیں۔
پارٹی ٹکٹ کن کو ملتے ہیں یا کن کو نہیں ملتے یہ قبل از وقت ہے جبکہ دوسری طرف کچھ سیاسی سرداروں کے چہروں پر خاموشی کے آثار روز روشن کی طرح عیاں ہیں ایسا لگ رہا جیسے کسی پکار کے انتظار میں لب خاموش اور چہرے منتظر ہیں۔
ضلع گھوٹکی میں پاکستان پیپلز پارٹی کا سخت مقابلہ کرنے والی واحد مضبوط جماعت پیر پگاڑا کے زیر سرپرستی چلنے والی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس( جی ڈی اے) ہے جو مختلف سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہے، تاحال ضلع گھوٹکی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حریف جماعت جی ڈے اے بھی خاموش ہی ہے، گھوٹکی کی قومی و صوبائی نشستوں پر اب تک کوئی امیدوار جی ڈے اے کی جانب سے منظر عام پر نہیں آسکا جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے بھی اب تک کوئی امیدوار منظر عام پر عیاں نہیں ہوا جبکہ گھوٹکی سے کئی نئے چہرے اور متعدد نظریاتی ورکرز پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹ پر میدان میں اترنے کے لئے بے صبری سے منتظر ہیں، کون ہوگا پی ٹی آئی کا امیدوار تاحال یہ کہنا قبل از وقت ہے۔
دوسری جانب جمعیتِ علماء اسلام (ف) بھی اندورنی مشاورت میں مشغول ہے، جمعیتِ کا کس سے ہوگا اتحاد؟ کون بنے کا جمعیتِ کا ساتھی؟ یہ کہنا بھی قبل از وقت ہے جبکہ تحریک لبیک پاکستان نے گھوٹکی کی دو قومی اور چار صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر اپنے امیدوار میدان میں اتارنے کا اعلان کر رکھا ہے، دوسری طرف سندھ کی قوم پرست سیاسی جماعت سندھ ترقی پسند پارٹی کے وائس چیئرمین جام عبدالفتاح سمیجو بھی میدان میں اترنے کے لئے بے قرار ہیں، ہمارے ذرائع کے مطابق 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں گھوٹکی کی تاریخ میں پہلی بار 2 قومی اور 4 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر نئے چہرے آزاد امیدواروں کے طور میدان میں اترنے کے لئے سرگرم ہیں۔