وزیر اعلیٰ سندھ کا ماروی کے کنویں کا دورہ

IMG-20231221-WA0010

نگران وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے صحرائے تھر کے دورے کےد وران بھالوا میں ماروی کے کنویں کا دورہ بھی کیا اور انہوں نے وہاں کیے گئے انتظامات کی تعریفیں بھی کیں۔

نگران وزیراعلیٰ سندھ کی آمد پر لوک فنکاروں نے بھٹائی کے سر مارئی سے گیت گاکر ان کا استقبال کیا، جسٹس مقبول باقر نے وہاں بنایا گیا میوزیم بھی دیکھا اور میوزیم میں موجود مارئی کے کپڑے، زیور اور چادر بھی دیکھی۔

اس موقع پر نگران وزیراعلیٰ سندھ نے بھلوا کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کے مسائل سنے اور پھر ان کے مسائل حل کرنے کیلئے موقع پر ہی احکامات دیئے۔

خیال رہے کہ ماروی کا کنواں تھر کے قصبے بھالوا میں موجود ہے اور بھالوا ضلع تھرپارکر اور تحصیل ننگر پارکر میں باکڑو دریا کے کنارے موجود ایک قصبہ ہے، یہ سندھ کی لوک داستان کی ہیروئن ماروی کا آبائی گوٹھ ہے۔ یہ قصبہ سیاحت کے حوالے سے خطے میں اہم مقام رکھتا ہے۔

مٹھی سے ننگرپارکر جانے والی سڑک پر جین مندروں کے قریب قدیم زمانے سے آباد تھرپارکر کی تاریخ، تہذیب وتمدن سے جڑا ہوا یہ گاؤں بھالوا انتظامی طور تحصیل ننگرپارکر کا حصہ ہے۔ کسی زمانے میں اس علاقے میں ریباری قبیلے کے 12 گاؤں آباد تھے، جب کہ بھالوا کے قریب ملیر نامی بستی تھی۔ بھالوا کے نام کے بارے میں ماہرین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

سندھ کی مشہور لوک داستان، عمر ماروی کی ابتدا اسی گاؤں سے ہوئی تھی۔ سندھی مؤرخین کے مطابق شاہ عبدالطیف بھٹائی کی ’’سورمی ‘‘حب الوطنی کے عظیم کردار ماروی کا آبائی گاؤں بھالوا ہے۔

لیکن کچھ محقق اس رائے سے اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق ماروی کا گاؤںتلہار یا تلواڑا ہے۔

ایک لوک روایت میں ہے کہ بھالوا کے قریب ملیر نامی بستی تھی، جہاں ماروی نے جنم لیا تھا۔ تھر کی تاریخ اور لسانیات کے ماہر کہتے ہیں کہ ملیر ایک گاؤں کا نام نہیں بلکہ ساون رت میں سبز تھر کو ملیر کہا جاتا ہے۔

دوسری روایت کے مطابق بھالوا کے رہائشی ،پالنو پنہوار نے اپنی بیٹی کی سگائی رسم و رواج کے تحت کھیت سین سے کی تو علاقے کے ایک بااثر شخص ’’پھوگ‘‘ کو بہت صدمہ ہوا۔

اس کی آرزو تھی کہ ماروی اس کی دلہن بنے۔پہلے تو اس نے ماروی کے والدین پر دباؤ ڈالنےکے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کیا۔ جب اس کا ہر حربہ ناکام ہوگیا تو ماروی کے والدین سے انتقام لینے کے لیے عمرکوٹ پہنچا، وہاں اس نے سومرا حکمراں عمر سومرو کی خدمت میں حاضری دی اور عمر سومرو سے ملاقات کے دوران اس نے ماروی کے حسن کی داستانیں سنائیں۔

عمر سومرو، ماروی کے حسن کی تعریف سن کر دیوانہ ہو گئے اور اس نے ماروی کوہر قیمت پر حاصل کرنے کا تہیہ کرلیا۔
ایک مرتبہ ماروی اپنی سہلیوں کے ساتھ کنویں سے پانی بھر رہی تھی کہ عمر سومرو وہاں آگیا اور اسے زبردستی اٹھا کر اپنے شہرلے گیا اور وہاں اپنے محل میں قید کر دیا۔

قید کے دوران عمر سومرو نے ماروی کوہر طرح کا لالچ دیا لیکن ماروی کا ایک ہی جواب تھا ’’میں مارو قبیلے کی بیٹی ہوں، کھیت سین میرا خاوند ہے، میں تیرے ریشمی اور اطلس کے کپڑوں سے ملیر کی لوئی کو عظیم مانتی ہوں‘‘

ماروی کے ان جذبات کو شاہ عبدالطیف نے اپنے صوفیانہ کلام میں پیش کیا اور اسے سندھ کی ہیروئن کے طور پر پیش کیا، تب سے آج تک ماروی کو مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔