سندھ میں اسکول نہ جا پانے والے بچوں کے لیے نان فارمل ایجوکیشن لرننگ سینٹرز قائم کرنے کا اعلان

سندھ حکومت نے اسکول نہ جا پانے والے ان پڑھ بچوں کو تعلیم اور تربیت دینے کے لیے سندھ نان فارمل ایجوکیشن اتھارٹی قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

وزیر تعلیم سید سردار شاہ کے مطابق نان فارمل ایجوکیشن اتھارٹی کے ذریعے بچوں اور نوجوانوں کو مختصر وقت میں تعلیم اور تربیت دے کر انہیں اسناد دی جائیں گی۔

یہ بات انہوں نے دارلحکومت کراچی میں سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن کے حوالے سے منعقدہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔

اس موقع پر سیکریٹری تعلیم سندھ زاہد علی عباسی، مینجنگ ڈائریکٹر سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن عبدالکبیر قاضی، ڈپٹی ڈائریکٹرز و دیگر افسران نے شرکت کی۔

اجلاس میں سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن کے حوالے سے مجموعی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔

صوبائی وزیر سید سردار علی شاہ کو آگاہی دی گئی کہ ایس ای ایف کے تعاون سے سندھ میں 2566 اسکولز چلاۓ جا رہے ہیں جن میں 8 لاکھ 74 ہزار سے زائد بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

سیف کے اسکولوں میں 670 پرائمری، 1323 ایلمنٹری، 174 ہائی اسکولز، 295 سیکنڈری اور 58 ہائر سیکنڈری اسکولز شامل ہیں۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن کے تحت چلنے والے اسکولز میں 40 فیصد اسٹوڈنٹس لڑکیاں ہیں، اس کے علاوہ ان اسکولز میں 52 فیصد فیمیل اساتذہ جبکہ 230 فیمیل پارٹرنز سیف کے اسکول بھی چلا رہی ہیں۔

سیف کے پیپلز اسکول پروگرام کے تحت پرائیویٹ پارٹنرز کے ساتھ مل کر 34 انگلش میڈیم اور جنرل اسکول بھی قائم کئے گئے ہیں۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن کے نوعمروں اور نوجوانوں کی ٹریننگ اور سیکھنے کے پروگرام کے حوالے سے لرننگ سینٹرز چلائے جا رہے ہیں، اس ضمن میں سندھ میں رواں سال کے آخر تک مزید 111 سینٹرز قائم کر کے 15 ہزار نوعمر بچوں اور نوجوانوں کو تربیت دی جاۓ گی۔

صوبائی وزیر تعلیم سندھ سید سردار علی شاہ نے کہا کہ سندھ میں نان فارمل ایجوکیشن طریقہ کار کو بہتر کرنے کے لیے نان فارمل ایجوکیشن اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے، جس کے ذریعہ اسکولوں سے رہ جانے والے بچوں کو پڑھنے اور سیکھنے کے عمل کو ایک ساتھ چلا کر مختصر وقت میں ان کو تعلیم مکمل کرنے میں مدد دی جاۓ گی۔

سید سردار علی شاہ نے کہا کہ چیئرمین بلاول بھٹو ذرداری کی طرف سے واضع ہدایات ہیں کہ سندھ میں تعلیم سے رہ جانے والے بچوں خاص طور پر اسکول ڈراپ آئوٹ تناسب کو ہر صورت میں کم کیا جائے۔