سندھ حکومت کا سیلاب متاثرین کے سوا لاکھ گھر تیار کرنے کا دعویٰ
سندھ حکومت نے صوبے میں 2022 میں آنے والے ہولناک سیلاب میں تباہ ہونے والے سوا لاکھ گھر تیار کرکے مکینوں کے حوالے کرنے کا دعویٰ کردیا۔
پیپلز ہاؤسنگ اسکیم کے سی ای او خالد محمود شیخ کے مطابق سندھ کے 21 اضلاع میں سے سوا لاکھ گھروں کی تعمیر کی جاچکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرین چاہتے ہیں کہ ان کی بستی میں ہی اچھے اسپتال، معیاری تعلیمی ادارے اور سڑکوں کا جال بچھایا جائے تاکہ وہ بھی عام شہریوں کی طرح ایک خوشحال زندگی گزار سکیں۔
پیپلز ہاؤسنگ اتھارٹی کے مطابق صوبہ بھرمیں سیلاب متاثرین کو 21 لاکھ نئےگھر بنا کر دیےجائیں گے۔ 5 لاکھ گھر اب بھی زیر تعمیر ہیں، لیکن متاثرین کے خواب اب بھی ادھورے ہیں کہیں واش روم کے مسائل ہیں تو کہیں نئے گھروں کے قریب سڑکیں نہیں، کہیں اسکول دور ہے تو کہیں سیوریج کا نظام نہ ہونے سے مکین پریشان ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق سیلاب کے دوران سکھر ڈویژن کے تین اضلاع خیر پور، سکھر اور گھوٹکی میں مجموعی طور پر 2 لاکھ 37 ہزار 402 مکانات تباہ ہوئے تھے۔ منصوبے کے تحت سکھر میں 83 ہزار 417 مکانات کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے۔ جبکہ گھوٹکی میں 3 ہزار 90 اور خیر پور میں 35 ہزار 42 نئے گھروں میں مکین منتقل ہوگئے ہیں۔
لاڑکانہ ڈویژن کے اضلاع جیکب آباد، کشمور، لاڑکانہ، قمبر شہداد کوٹ اور شکار پور میں مجموعی طور پر 30 ہزار 21 مکانات مکمل تعمیر ہو چکے ہیں۔
اسی طرح حیدر آباد کے نو اضلاع میں تین لاکھ 37 ہزار 856 گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے حیدرآباد، جامشورو، دادو، ٹنڈو الہٰیار، ٹنڈو محمد خان، سجاول، بدین، ٹھٹہ اور مٹیاری میں مجموعی طور پہلے مرحلے میں محض 26،005 گھروں کی تعمیر مکمل ہوسکی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق نواب شاہ ڈویژن کے ضلع سانگھڑ میں 23855 مکانات کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے۔ ضلع نواب شاہ میں تعمیر ہونے والے مکانات کی تعداد 8235 ہے۔نوشہرو فیروز میں 13 ہزار 459 مکانات مکمل ہونے کے بعد سیلاب متاثرین اپنے نئے گھروں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ لاڑکانہ ڈویژن میں بھی سیلاب متاثرین کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں، کہیں رنگ و روغن ہو رہا ہے تو کہیں تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے۔
یوں میرپور خاص ڈویژن کے تین اضلاع تھر پارکر، عمر کوٹ اور میرپور خاص میں مجموعی طور پر 2 ہزار 297 مکانات مکمل تعمیر کر دیے گئے ہیں اور متاثرین خوشی خوشی یہاں معمولات زندگی میں مصروف ہیں۔ تاہم نئے گھروں کے نقشے میں واش روم کی سہولت نہیں جس کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
صوبے کی کراچی ڈویژن میں سیلاب سے کوئی نقصان نہیں ہوا تھا، اس لیے وہاں گھروں کی تعمیر کا منصوبہ شروع ہی نہیں کیا گیا۔