سکھر بیراج کیا ہے؟ اس کے دروازے ٹوٹنے سے کیا نقصان ہوگا اور نیا دروازہ لگانا اتنا مشکل کیوں یے؟

لائیڈ بیراج سکھر‘ دریائے سندھ پر واقع ملک کا طویل ترین بیراج ہے اور دنیا میں اپنی نوعیّت کا سب سے بڑا آبپاشی نیٹورک ہے۔ کیونکہ اس بیراج کی بدولت سندھ اور بلوچستان کی تقریباً 82 سے 83 لاکھ ایکڑ زمین آباد ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے یہ دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام وضع کرنے والا بیراج مانا جاتا ہے۔

یہ بیراج پورے ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈّی کی حیثیت رکھتا ہے، جو 9 ہزار 923 کلومیٹر ( 6 ہزار 166 میل) طویل 7 نہروں کا نیٹورک ہے، جو دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام مہّیا کرتا ہے۔
اس میں سے 7.63 ملین ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی گزرتا ہے۔ جس سے سیراب ہونے والی زمین، ملک کے کُل نہری طور پر سیراب رقبے کا تقریباً 25 فیصد ہے۔

اس بیراج کو برقرار رکھنے والی دیوار میں 66 اسپین (آؤٹ فال گیٹس) یعنی نیم گول شکل کے دروازے ہیں، جن میں سے ہر ایک 18 میٹر ( 60 فٹ) چوڑا اور 50 ٹن وزنی ہے۔ ان 66 دروازوں کی وجہ سے اس بیراج کو عرفِ عام میں، عام لوگ ”66 دروازوں والا پُل“ بھی کہتے ہیں۔ عام مقامی لوگ اس بیراج کو ”سکھر والا پُل“ بھی کہتے ہیں۔ (حالانکہ یہ پُل نہیں ہے۔ )

لائیڈ بیراج کے ذریعے سندھُو دریا سے نکلنے والی سات نہروں میں سے اس کی دائیں جانب سے نکلنے والی تین نہریں ’دادُو کینال‘ ، ’رائیس کینال‘ اور ’نارتھ ویسٹرن کینال‘ (جسے ’کِھیر تھر کینال‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ) شامل ہیں۔ جبکہ بائیں جانب سے نکلنے والی چار نہروں میں، ’نارا کینال‘ ، ’روہڑی کینال‘ ، ’خیرپور فِیڈر ایسٹ کینال‘ اور ’خیرپور فِیڈر ویسٹ کینال‘ شامل ہیں۔

نارا کینال، جو کہ اس بیراج سے نکلنے والی ان سات نہروں میں سے ایک ہے، پاکستان کی سب سے طویل نہر ہے، جو لندن شہر کے بِیچوں بیچ بہنے والے ”دریائے تھیمز“ کے تقریباً مساوی پانی لے جاتی ہے۔ اس کے پیٹ کی چوڑائی 105 میٹر ( 346 فٹ) ہے۔ جو کہ ’نہر سُویز‘ (سُویز کینال) سے ڈیڑھ گُنا بڑی ہے۔ نارا کینال 9 لاکھ 30 ہزار ہیکٹر ( 23 لاکھ ایکڑ) کے رقبے کو فائدہ پہنچاتا ہے۔

لائیڈ بیراج سکھر کی ایک اور (دُوسری) سب سے بڑی نہر ’روہڑی کینال‘ ہے، جس کی لمبائی نارا کینال سے تھوڑی کم ہونے کے باوجود بہت طویل ہے۔ یہ کینال 11 لاکھ ہیکٹر ( 26 لاکھ ایکڑ) کے قابلِ کاشت رقبے کو آباد کرتا ہے۔ اس نہری نظام پر اُگائی جانے والی اہم فصلوں میں کپاس، گندم اور گنّا شامل ہیں۔ دریائے سندھ کے بائیں جانب چاروں نہریں اور دائیں کنارے پر دو نہریں بارہ ماسی نہریں ہیں، جو سارا سال پانی فراہم کرتی ہیں۔

ساتویں نہر یعنی ’رائیس کینال‘ ، دائیں جانب ایک موسمی نہر ہے، جو صرف خریف کے موسم میں بہتی ہے۔ جسے سندھ کے شمالی اضلاع، بالخصُوص لاڑکانہ اور دادُو میں چاول کی کاشت کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ دائیں کنارے کی ایک اور نہر، ’این ڈبلیُو کینال‘ / ’نارتھ ویسٹرن کینال‘ (کِھیرتھر کینال) 3 لاکھ 91 ہزار ہیکٹر ( 9 لاکھ 65 ہزار ایکڑ) کے رقبے کو بارہ ماسی آبپاشی فراہم کرتی ہے۔ جس میں سے صرف 74 ہزار ہیکٹر (ایک لاکھ 84 ہزار ایکڑ) زمین، صوبۂ بلوچستان میں واقع ہے۔

سکھر بیراج کا تصوّر، مسٹر ’سی۔ اے۔ فائف‘ نے 1868 ء میں پیش کیا تھا، جبکہ اس اسکیم کا آغاز بمبئی کے گورنر ’سر جارج لائیڈ‘ نے کیا تھا، جنہیں بعد میں ’لارڈ لائیڈ‘ کے نام سے بھی جانا گیا۔ جبھی ان کی نسبت سے، اس بیراج کا نام اُن کے اعزاز میں ’لائیڈ بیراج‘ رکھا گیا۔ تاہم، اس منصوبے کی حتمی منظُوری، 1923 ء میں دی گئی۔ اور اسے معروف برطانوی سِول انجنیئر، ’سر چارلٹن ہیریسن‘ ، کی بطور چیف انجینئر، مجموعی ہدایات پر تعمیر کیا گیا۔

جبکہ ایک اور ماہر برطانوی سِول انجنیئر، ’سر آرنلڈ مستو‘ ، اس اسکیم کے ڈیزائن کے خالق (آرکیٹیکٹ) اور انجینئر تھے۔ اس کے ہیڈ ورکس اور نہروں کی تعمیر 1932 ء تک مکمّل ہوئی۔ جن کی تکمیل پر اس بیراج کا باضابطہ افتتاح، اُس وقت کے وائسرائے ہند۔ ’دی فرسٹ ارل آف ولنگڈن‘ نے 13 جنوری 1932 ء کو کیا۔ اب اس بیراج کی تعمیر کو 92 سے زیادہ برس گزر چکے ہیں۔ اس درمیان اس کی مرمت کے چھوٹے موٹے کام تو ہوتے رہے ہیں، مگر کوئی جامع مرمتی کام نہیں ہو سکا۔

لائیڈ بیراج سکھر کی تعمیر کے 72 برس بعد ، 2004 ء میں اس کے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اور تقسیم کی کارکردگی کو بحال کرنے کے لئے، حکومتِ پاکستان نے سکّھر بیراج کی بڑے پیمانے پر بحالی کا کام شروع کیا۔ یہ کام پاکستان آرمی انجینئرنگ کور اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیُو او) نے 22 نومبر 2004 ء کو شروع کیا تھا، جسے 15 ملین امریکی ڈالرز کی لاگت سے جولائی 2005 ء میں مکمّل کیا گیا۔ ماہرینِ آبپاشی کے مطابق، بیراج کی اس بحالی سے اس کی کارکردگی میں مزید 60 سے 70 سال تک کے استعمال کے لئے اضافہ ہو گیا۔

گویا 19 سال پہلے کی گئی اس جزوی مرمت کے بعد کیے گئے اس دعوے میں بھی کوئی صداقت نہ رہی کہ اس قلیل عرصے میں اس بیراج کے دروازوں کو ازسر نو تعمیر کی ضرورت پیش آنے لگی اور اس کے دروازے زنگ آلود اور طویل العمر ہونے کے باعث اب پانی میں بہنے لگے ہیں۔ یعنی 19 برس قبل کی گئی اس مرمت کے باوجود اس پورے بیراج کی ازسرِ نو مرمت کی ضرورت گزشتہ کئی برسوں سے محسوس کی جا رہی ہے اور اسی سلسلے میں چینی انجنیئرز کی ایک ٹیم ورلڈ بینک کے ایک پروجیکٹ کے تحت گزشتہ کئی ماہ سے سکھر میں رہائش پذیر ہے۔

یہ پروجیکٹ اس بیراج کی تعمیر و مرمّت کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ سکھر بیراج کے تمام 66 دروازے مکمل طور پر تبدیل کرنے کے اس پروجیکٹ کے تحت سکھر میں مقامی طور پر ان چینی انجنیئرز کی جانب سے ایک ورکشاپ بھی نصب کیا ہے۔ اس ٹیم کی ذمہ داریوں میں سکھر بیراج کے تمام 66 دروازوں کو از سرِ نو تعمیر کر کے بیراج میں نصب کرنا ہے۔ اسی سلسلے میں پچھلے دنوں بیراج کے گیٹ نمبر 36 کی تبدیلی کا کامیاب تجربہ بھی کیا گیا تھا۔

جس کے بعد اسی ورکشاپ میں سکھر بیراج کے باقی ماندہ گیٹوں کی تعمیر کا کام (مکینیکل ورک) جاری ہے۔ لیکن حال ہی میں چند دن قبل جمعرات 20 جون 2024 ء کو پیدا ہونے والی صورتحال کے تحت سکھر بیراج کے گیٹ نمبر 44 کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنی پوزیشن سے ہلنے کے قابل نہیں رہا اور اس کو اوپر یا نیچے حرکت دینا تکنیکی طور پر ممکن نہیں رہا اور پانی عملاً اس دروازے کے اوپر سے گزر کے جا رہا ہے۔ جبکہ اس کا گیٹ نمبر 47 مکمل طور پر دریا بُرد ہو چکا ہے اور اس تشویشناک صورتحال کے تحت بیراج کے ”پونڈ لیول“ کو برقرار رکھنے کے لیے بیراج کی دائیں خواہ بائیں جانب بہنے والی ساتوں نہروں کو پانی کی فراہمی اس وقت بند کی جا چکی ہے، جب خریف کی فصل پر لاکھوں روپے کا بیج ڈال کے اس حد تک تیار کیا گیا ہے کہ وہ پانی کے حصول کے لیے بالکل تیار ہے اور ان کو اگر وقت پر پانی نہ ملا تو ان فصلوں کو یقینی طور پر نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اس بیراج کی ڈیزائن شدہ گنجائش 9 لاکھ کیُوسکس پانی کے بہاؤ کو برداشت کرنے کی ہے، جبکہ یہ گیٹ صرف ایک لاکھ کیُوسکس کے دباؤ پر ہی بہہ چلا۔ جس سے اس بیراج کی کمزور صورتحال اور اس کی طرف محکمۂ آبپاشی حکومتِ سندھ کی عدم سنجیدگی اور عدم دلچسپی بجا طور پر نظر آ رہی ہے۔ اس اچانک سے پیدا ہونے والی ایمرجنسی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لیے فوری طور پر وزیرِ آبپاشی سندھ جام خان شورو نے جمعہ 21 جون 2024 ء کو بیراج کا دورہ کیا اور ضروری مرمت کے احکامات جاری کرتے ہوئے یہ عزم ظاہر کیا کہ انہی چینی انجنیئرز سے جو ورلڈ بینک کے مربوط پروجیکٹ کے تحت اس پورے بیراج کی بحالی اور مرمت کے کام کے سلسلے میں یہاں پہلے سے ہی موجود ہیں، ان کو گیٹ نمبر 44 کی مرمت اور گیٹ نمبر 47 کی ازسر نو تعمیر کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اور محکمۂ آبپاشی کے ذرائع کے مطابق یہ گیٹ نمبر 47 کم از کم ایک ہفتے اور زیادہ سے زیادہ 10 دن تک اسی چینی انجنیئرز کے قائم شدہ ورکشاپ میں بن کر نصب ہو جائے گا۔ اگر اس بات پر جُوں کا توں عمل ہوتا ہے تو پھر تو یہ خوش آئند اور اطمینان بخش بات ہے۔ لیکن اگر یہ صرف مشتعل آبادکاروں کو عارضی طور پر خاموش کرنے کے لیے ایک دلاسا ہے، تو پھر یہ انتہائی تشویش ناک صورتحال ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ مضمون ابتدائی طور پر ہم سب میں شائع ہوا۔