پانی میں ڈوبے سندھ میں درمیانے درجے کے سیلاب کا خطرہ، کئی شہر ڈوبنے کا امکان

حیدرآباد جیسے بڑے شہر سے بھی تاحال پانی نہیں نکالا جا سکا—فوٹو: رائٹرز

تیز بارشوں کے باعث تاحال پانی میں ڈوبے ہوئے سندھ میں خیبرپختونخوا اور پنجاب سمیت بلوچستان سے سیلابی ریلے آنے کے باعث درمیانے درجے کے سیلاب کا خطرہ پیدا ہوگیا، جس سے کئی شہر ڈوب جانے کا خطرہ ہے۔

خیبرپختونخوا سے سیلابی پانی پنجاب میں داخل ہو چکا ہے، جس سے دریائے سندھ کے قریب آباد شہروں اور علاقوں میں بڑے درجے کے سیلاب کے خطرے کی وارننگ جاری کردی گئی اور علاقوں مکینوں کو علاقہ خالی کرنے کی ہدایات بھی کی جا چکی ہیں۔

کے پی اور پنجاب کا سیلابی پانی صوبہ سندھ اور بلوچستان میں داخل ہونے کے بعد وہاں بھی درمیانے درجے کے سیلاب کا خطرہ ہے جب کہ وہاں پہلے ہی زیادہ تر شہر اور علاقے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

سندھ میں پنجاب اور بلوچستان سے پانی داخل ہونے کے بعد لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں پانی کا دبائو بڑھ چکا ہے، جہاں دریا کے ملحقہ علاقوں کو خالی کرنے کے احکامات بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔

بلوچستان سے آنے والے سیلابی پانی کا دباؤ بڑھنے کے بعد سندھ کو پھر سیلاب کا سامنا ہے، ضلع دادو کی تحصیل میہڑ کی آخری ڈیفنس لائن سپریو بند میں 30 فٹ چوڑا شگاف پڑگیا، ریلے میہڑ کی طرف بڑھنے لگے جس سے  100 سے زائد دیہات متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

پانی کا دباؤ کم کرنے کے لیے حکومت سندھ نے جوہی کنال میں شگاف ڈال دیا، سیلاب جوہی شہر سمیت 60 دیہات کو متاثر کرے گا، علاوہ ازیں میہڑ شہر کے ڈوبنے کا بھی خطرہ ہے۔

کنڈیارو کے قریب دریائے سندھ میں طغیانی سے زمیندارہ بند ٹوٹ گیاجس سے  پانی بکھری میں داخل ہوگیا، سانگھڑ کے قریب سیم نالے کا شگاف پر نہ کیا جا سکا جس سے  پانی سانگھڑ شہر کی جانب بڑھنے لگا اور کئی دیہات زیر آب آ گئے، علاقے میں پاک نیوی کا ریسکیو آپریشن جاری ہے۔

میرپورخاص میں جھڈو کے قریب روشن آباد پران ندی میں شگاف پڑگیا جس 

سے سیلابی ر یلے بدین کی جانب بڑھنے لگے جب کہ پہلے ہی متاثرہ علاقوں میں پانی موجود ہے۔

اس وقت صوبے کے آفت زدہ قرار دیے گئے 23 ہی اضلاع پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، جہاں کے ہزاروں دیہات کا دوسرے علاقوں سے زمینی رابطہ بھی منقطع ہے جب کہ صوبے میں درمیانے درجے کے سیلاب آنے سے مزید تباہی ہونے کے امکانات ہیں۔

صوبے میں بارشوں کے بند ہونے کے 10 دن گزر جانے کے باوجود زیادہ تر بڑے شہروں سے بھی پانی نہیں نکالا جا سکا جب کہ صوبے بھر میں تاحال معمولات زندگی بحال نہیں ہوسکے، سندھ بھر میں بجلی کی ترسیل بند ہے جب کہ خوراک اور ادویات کی سخت قلت کے باعث بھی شدید مشکلات درپیش ہیں۔