کے این شاہ، جوہی اور میہڑ ڈوبنے کا امکان، شہر خالی کرادیے گئے

خیبرپختونخوا، پنجاب اور بلوچستان سے سیلابی ریلے سندھ میں داخل ہونے کے بعد ضلع دادو کے تین تعقلہ ہیڈ کوارٹر خیرپور ناتھن شاہ (کے این شاہ) جوہی اور میہڑ ڈوبنے کے امکانات بڑھ گئے اور ضلعی انتظامیہ نے تینوں شہروں کو رات ہونے سے قبل ہی خالی کرالیا۔

دادو کے تینوں تعلقہ ہیڈ کوارٹرز کے ڈوبنے کی پیش ہوگئی 28 اگست کو ہی صوبائی ریلیف کمشنر کی جانب سے کی گئی تھی اور ضلعی حکومت کو اس ضمن میں نوٹس کے زریعے آگاہ بھی کیا گیا تھا اور 28 اگست کے دن کو ہی تینوں شہروں کو بچانے والے سپریو بند میں شگاف پڑنے سے شہروں کے ڈوبنے کا خطرہ مزید بڑھ گیا تھا۔

سپریو بند کو گوٹھ بہادر پور کے قریب شگاف پڑا تھا جو 29 اگست کی شام تک بڑھ کر ایک ہزار فٹ تک جا پہنچا تھا، جس وجہ سے علاقے کے پانی میں ڈوبے 60 گائوں میں مزید پانی داخل ہوچکا تھا۔

سپریو بند ٹوٹنے کے بعد سب سے پہلے کے این شاہ شہر کے ڈوبنے کے امکانات ہیں اور اسی ضمن میں وہاں سے شہریوں کو 29 اگست کی شام کو ہی گھروں سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کرنا شروع کردیا گیا تھا۔

تینوں ہیڈ کوارٹرز کے ڈوبنے کے امکانات بڑھ جانے کے بعد ضلع دادو کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) نے بھی 29 اگست کو الرٹ جاری کرتے ہوئے تمام شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔

تینوں شہروں کے ڈوبنے کے امکانات بڑھ جانے کی وجہ سے صوبائی حکومت اور پاک فوج نے ضلع دادو میں دو ہیلی کاپٹر پہنچا دیے تھے جب کہ بھاری مشینری سمیت ٹرکوں کی بھی بہت بڑی تعداد کو ضلع میں بلوا لیا گیا تھا اور شہروں کو زیادہ نقصان سے بچانے کے لیے مٹی کے بند بھی باندھے گئے تھے۔

تینوں شہروں کے سیکڑوں گائوں پہلے سے ہی بارشوں اور سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں جب کہ تینوں شہروں میں بھی پہلے سے ہی پانی موجود ہے اور اس صورت حال میں سیلابی ریلے شہر میں داخل ہونے کے بعد بڑی تباہی آنے کا امکان ہے۔

تینوں شہروں میں 7 لاکھ کے قریب افراد رہتے ہیں، جن میں سے ہزاروں لوگ پچھلے ہفتے ہی بارشوں کے دوران بے گھر ہوکر دوسری جگہ منتقل ہوچکے تھے اور اب مزید لاکھوں افراد کو راتوں و رات شہروں سے نکال دیا گیا اور شہریوں کو رات کے اندھیرے میں نکالے جانے کی وجہ سے بچوں پر خوف طاری ہوگیا۔

ضلع دادو کے تینوں تعلقہ ہیڈ کوارٹرز کے علاوہ اگر سیلابی ریلے اندازوں سے زیادہ تیز نکلے تو سیلاب سے قمبر و شہداد کوٹ کے چھوٹے شہر، ٹائونز اور بڑے قصبے بھی ڈوبنے کا امکان ہے۔

دوسری جانب سکھر اور گڈو بیراج پر بھی پانی کا دبائو بڑھ جانے سے سکھر اور خیرپور اضلاع سمیت کندھ کوٹ و کشمور اور جیکب آباد سمیت شکارپور کے کئی علاقے بھی ڈوب جانے کا خطرہ ہے۔

علاوہ ازیں دادو ضلع میں سیلاب داخل ہونے کے بعد جامشورو ضلع کے کئی شہر اور دیہات بھی ڈوبنے کے امکانات بڑھ چکے ہیں۔

صوبے کے بہت بڑے حصۓ کے ڈوبنے کے باوجود سندھ حکومت نے پہلے سے کسی طرح کے حفاظتی انتظامات کیے بغیر ہی شہریوں کو خود محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایات جاری کیں۔