سیلابی پانی کے این شاہ، میہڑ اور جوہی کی حدود میں داخل
سیلابی پانی درجنوں دیہات کو ڈبوتا شہروں کے قریب پہنچ چکا—اسکرین شاٹ/ یوٹیوب
خیبرپختونخوا، پنجاب اور بلوچستان سے سیلابی ریلے سندھ میں داخل ہونے کے بعد ضلع دادو کے تین تعقلہ ہیڈ کوارٹرز خیرپور ناتھن شاہ (کے این شاہ) جوہی اور میہڑ شہر کی حدود میں داخل ہوگئے، جس سے تینوں شہروں کا کئی علاقوں سے زمینی رابطہ کٹ گیا۔
تینوں شہروں سے سے گزشتہ شب ہی لوگوں کو نکل جانے کی ہدایات کی گئی تھیں مگر سندھ حکومت نے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے کوئی انتظامات تک نہ کیے تھے۔
#knshah pic.twitter.com/bf5i1TWePM
— Abdul Khalik Mugheri (@MugheriKhalik) August 30, 2022
تینوں شہروں کے کم از کم 7 لاکھ افراد حکومتی الرٹ کے بعد ہنگامی صورت حال میں نکلے تھے، جس سے شہر اور اس کے آس پاس میں خوف بھی پھیل گیا تھا جب کہ بچوں اور خواتین پر سکتا طاری ہوگیا تھا۔
انتظامیہ نے تینوں شہروں کو بچانے کے لیے بچائو بند بھی باندھنا شروع کردیا تھا، تاہم سیلابی پانی تینوں شہروں کی حدود میں داخل ہوگیا اور سیلاب سے تینوں شہروں کے قریبی درجنوں گائوں ڈوب گئے۔
#Justin Look at the pressure of water. Moving towards KN Shah. People of #KNShah are being informed with the help of sirens warning system. The conditions are getng worse. #Sindhfloods #PakistanFloods pic.twitter.com/t6etoRfQsv
— Aakash (@AAKASHPUNHANI) August 29, 2022
تینوں شہروں کے لوگوں کو محفوظ مقام مہیا نہ کرنے پر بھی لوگوں نے سوشل میڈیا پر سندھ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔
سپریو بند کو گوٹھ بہادر پور کے قریب شگاف پڑنے کے بعد تینوں شہروں کی حدود میں سیلابی پانی داخل ہوا اور شگاف کو تاحال بند نہیں کیا جا سکا۔
YA ALLAH Have Mercy🥺
I have no words for the explanation of the KN Shah People Situation💔
This is the time for sleep but the women & children of the Khairpur Nathan Shah sitting on the roads and they are totally anxious.@MediaCellPPP @SeemiSoomro @MuradAliShahPPP @mahenoor28 pic.twitter.com/voRqFURUB9— Safdar RabNawaz Channa🇵🇰 (@channa_safdar) August 29, 2022
دوسری جانب منچھر جھیل پر بھی پانی کی زائد مقدار کے بعد آس پاس کے علاقوں میں سیلاب آنے کا امکان پیدا ہوگیا۔
سیلابی ریلا دادو جوہی روڈ پر اور ٹاپ کرگیا pic.twitter.com/RhCpwvW9cd
— Abdul Khalik Mugheri (@MugheriKhalik) August 30, 2022