جان محمد مہر کے قتل کو ایک سال بیت گیا، قاتل گرفتار نہ ہوسکے
ایک سال گزر جانے کے باوجود مقتول صحافی جان محمد مہر کے قتل میں نامزد مرکزی ملزمان کو گرفتار نہ کیے جانے کے خلاف سندھ بھر میں مظاہرے جاری ہیں جب کہ مقتول کے ورثا آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔
جان محمد مہر کو 13 اگست کو سکھر میں محمد بن قاسم پارک کے قریب مسلح ملزمان نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔
قتل کے دو دن بعد ان کے بھائی اکرم اللہ مہر کی مدعیت میں سی سیکشن تھانے میں ان کا مقدمہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دائر کیا گیا تھا اور پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 18 اگست تک مجموعی طور پر تین ملزمان کو گرفتار کرکے ان کا ریمانڈ بھی حاصل کیا تھا جب کہ مرکزی ملزمان تاحال گرفتار نہیں کیے جا سکے
سندھ حکومت نے صحافیوں کے مطالبے پر 17 اگست کو جان محمد مہر کے قتل کی تفتیش کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔
جان محمد مہر تین دہائیوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ تھے۔
انہیں سندھی صحافت کے پہلے الیکٹرانک صحافیوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔
جان محمد مہر کا آبائی تعلق ضلع شکارپور کی تحصیل لکھی غلام شاہ کے شہر چک سے تھا۔
انہوں نے سندھ کے پہلے ٹی وی چینل کے ٹی این سے الیکٹرانک صحافت کا آغاز کیا، انہوں نے کیریئر میں متعدد ایسی اسٹوریز رپورٹ کیں جنہوں نے سندھ کے عوام کو بھی پہلی بار اصل مسائل سے آگاہ کیا۔
جان محمد مہر کو قبائلی تصادم کی اندرونی خبریں اور پولیس و ڈاکوؤں کے درمیان ہونے والے مقابلوں اور خفیہ ڈیلز کی خبریں سامنے لانے پر شہرت حاصل تھی۔
انہوں نے اپنے کیریئر میں ایسی خبریں بھی بریک کیں جنہیں سن کر لوگ دنگ رہ جاتے۔
جان محمد مہر نے کچے کے ڈاکوؤں کی کئی ایسی خبریں بریک کیں جن سے پولیس اور حکومت میں تہلکہ مچ گیا۔
چوں کہ جان محمد مہر کا تعلق مہر قبیلے سے تھا اس لیے وہ کچے کے لوگوں اور ڈاکوؤں سے رابطے کرنے میں ایکسپرٹ مانے جاتے تھے اور انہوں نے اپنے روابط کو استعمال کرتے ہوئے ڈاکوؤں کی کئی بڑی بڑی خبریں بریک کیں, جن سے پولیس میں کھلبلی مچ جاتی۔
جان محمد مہر کو کرائم رپورٹنگ پر دسترس سمیت سیاسی رپورٹنگ کا بھی وسیع تجربہ تھا۔