پیروں کی حویلی میں قتل کی گئی فاطمہ فرڑو کے گواہ مکر گئے، والدین بھی کمزور پڑ گئے، کیس سے دہشت گردی کی دفعات ختم

خیرپور کے شہر رانی پور کی حویلی میں مبینہ تشدد اور ریپ کے بعد ہلاک کی گئی کم سن بچی فاطمہ فرڑو کے قتل کیس کے پانچ چشم دید گواہوں کی جانب سے بیانات تبدیل کیے جانے اور والدین کی جانب سے عدالت میں حلف نامہ جمع کروانے کے بعد کیس سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرکے کیس کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے سیشن کورٹ منتقل کردیا گیا۔

کم سن فاطمہ کے قتل کا واقعہ 15 اگست 2023 کو سامنے آیا تھا، پولیس نے 16 اگست کو والدہ کی مدعیت میں مقدمہ دائر کرکے مرکزی ملزم پیر اسد شاہ سمیت تین ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا جو اس وقت عدالتی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہیں۔

کم سن فاطمہ کا معاملہ سامنے آنے کے بعد 19 اگست کو ان کی قبرکشائی کرکے ان کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا، جس کی ابتدائی رپورٹ میں بچی کے ساتھ مبینہ طور پر ریپ کے شواہد بھی ملے تھے۔

بعد ازاں پولیس نے کارروائیاں کرتے ہوئے مجموعی طور پر دو درجن سے زائد ملزمان کو گرفتار کیا تھا اور مرکزی ملزم پیر اسد شاہ تاحال جیل میں ہیں اور کیس گزشتہ ہفتے تک انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت تھا لیکن اب یہ کیس سیشن کورٹ میں چلے گا۔

تیرہ اگست 2024 کو ہونے والی سماعت کے دوران کیس کے پانچ گواہ اجلا فرڑو، ثانيه، صغير، محمد حسن اور نصير احمد اپنے بیان سے مکر گئے، انہوں نے نیا بیان دیا کہ بچی بیماری کی وجہ سے فوت ہوئی، پیروں نے بچی کو بچانے کی بڑی کوششیں کیں۔

گواہوں کے بیانات کے بعد عدالت نے کیس سے دہشتگردی کی دفعات ختم کرتے ہوئے کیس کو سیشن کورٹ منتقل کردیا۔

گواہوں کے بیان تبدیل کرنے کے بعد فاطمہ کی والدہ روتی رہیں اور انصاف نہ ملنے پر خود کو آگ لگانے کا اعلان بھی کیا۔

بعد ازاں فاطمہ کی والدہ شبنم نے میڈیا سے بات کے دوران اپنے وکیل پر بھی الزامات لگائے اور کہا کہ وہ نیا وکیل کریں گی۔

فاطمہ کے وکیل صفدر کناسرو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بچی کے والدین نے عدالت میں حلف نامہ جمع کروایا کہ اگر پیر اسد کو رہا کیا جاتا ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں، اب وہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہوں نے دباؤ میں آکر حلف نامہ جمع کروایا اور مجھ پر بھی الزام لگا رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ مفت میں فاطمہ کا کیس لڑ رہے تھے لیکن اب الزامات کے بعد وہ کیس کا حصہ نہیں رہیں گے۔