پیپلز پارٹی ہر بار انتخابات جیتنے کے باوجود سندھ سے ڈاکو راج کیوں ختم نہیں کروا پاتی؟

سندھ میں کئی دہائیوں سے ڈاکوؤں کا راج ہے اور ماضی میں 1990 کی دہائی میں ڈاکوؤں کے خاتمے کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے فوجی آپریشن بھی کیا تھا لیکن بعد میں سندھ بھر میں ڈاکو راج ایک بار پھر مضبوط بنا اور اب تو ڈاکو دن دہاڑے شہر کے بیچوں بیچ بھی لوگوں کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں۔

حالیہ عام انتخابات کے بعد، جب نئے نمائندوں نے ڈاکو راج کے خاتمے کے بڑے دعوے کیے، عوام نے امید کی تھی کہ یہ مسئلہ جلد حل ہوگا مگر انتخابات کے بعد کی صورتحال نے واضح کیا کہ ڈاکو راج اب بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔

سندھ بھر نیں کشمور سے لے کر کراچی تک ڈاکو راج کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

عوامی سطح پر ڈاکو راج کے خلاف شدید مایوسی اور غصہ پایا جاتا ہے۔ کندھ کوٹ سے تعلق رکھنے والے 45 سالہ سماجی رہنما آفتاب خان باجکانی کہتے ہیں کہ "میں نے ووٹ تو دیا، لیکن مجھے یقین نہیں کہ حالات واقعی بدلیں گے۔ کچے میں برسوں سے آپریشنز ہو رہے ہیں، لیکن ڈاکوؤں کی گرفتاری یا امن کی بحالی کا کوئی خاص اثر نظر نہیں آیا۔ ہر نمائندہ وعدے تو کرتا ہے، مگر زمینی حقائق مختلف ہیں۔”

کندھ کوٹ کے ہی 55 سالہ کاشت کار محمد عثمان بھی ڈاکو راج سے پریشان ہیں، کہتے ہیں "میں نے اس بار ووٹ سوچ سمجھ کر دیا ہے، اور میرا فیصلہ کچے میں امن کی بحالی سے جڑا ہے۔ سالوں سے یہاں کی عوام ڈاکوؤں کے ظلم و ستم کا شکار ہیں، اور میں چاہتا ہوں کہ وہ دن ختم ہوں جب لوگ خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔”

ایڈوکیٹ عبدالغنی بجارانی کہتے ہیں کہ "حالیہ انتخابات کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔ نئے منتخب نمائندوں نے جرائم کے خاتمے کے بڑے دعوے کیے تھے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ ابھی تک جوں کا توں موجود ہے۔ سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد اب بھی ان ڈاکوؤں کے ساتھ خفیہ تعلقات رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائی ممکن نہیں ہو رہی۔ انتخابات کے بعد یہ توقع تھی کہ نئے حکومتی نمائندے امن و امان کو بحال کریں گے، لیکن بدقسمتی سے، یہ مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے۔”

دوسری جانب ایم این اے سردار زادہ علی جان مزاری کہتے ہیں کہ "ہم نے الیکشن سے پہلے وعدہ کیا تھا کہ کچے میں امن بحال کیا جائے گا، اور اس مقصد کے لیے فوری طور پر کارروائیاں شروع کی ہیں۔ پولیس اور رینجرز کے ساتھ مل کر ایک جامع پلان ترتیب دیا گیا ہے تاکہ ڈاکوؤں کا صفایا کیا جا سکے۔ ہم عوام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔”

ایم این اے میر شبیر علی خان بجارانی نے کہتے ہیں کہ "ہم تسلیم کرتے ہیں کہ کچے میں حالات پیچیدہ ہیں اور ماضی میں کیے گئے اقدامات کے خاطر خواہ نتائج نہیں ملے۔ تاہم، اس بار ہم جدید ٹیکنالوجی اور بہتر حکمت عملی کا استعمال کرکے ڈاکوؤں کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔ عوام کی مایوسی بجا ہے، لیکن ہم پختہ عزم کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔”

سماجی کارکن ڈاکٹر عارف خان کے مطابق "ڈاکو راج کے پیچھے بنیادی عوامل میں غربت، بے روزگاری، اور تعلیمی سہولتوں کی کمی شامل ہیں۔ ان مسائل کے حل کے بغیر ڈاکو راج کا خاتمہ مشکل ہے۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت نہ صرف سیکیورٹی کے اقدامات کرے بلکہ سماجی اور اقتصادی اصلاحات بھی عمل میں لائے تاکہ نوجوانوں کو جرائم کی طرف مائل ہونے سے روکا جا سکے۔”

پروفیسر شائستہ خان کہتی ہیں کہ "قانونی نظام میں موجود خامیوں اور نظامِ انصاف کی کمزوریوں کی وجہ سے ڈاکو راج قائم ہے۔ یہ ضروری ہے کہ قوانین میں اصلاحات کی جائیں اور عدلیہ کو مضبوط بنایا جائے تاکہ جرائم پیشہ عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔”

ادھر ایس ایس پی بشیر احمد بروہی کہتے ہیں کہ "ہمیں ضلع کشمور اور اس کے ملحقہ علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کے لیے غیر معمولی چیلنجز کا سامنا ہے، لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے اس مسئلے کے حل کے لیے پرعزم ہیں۔ ہمیں علم ہے کہ ان مجرمانہ گروہوں کے پیچھے مضبوط نیٹ ورک اور سیاسی پشت پناہی شامل ہیں، لیکن ہم ان کے خلاف سخت ایکشن لینے کے لیے تیار ہیں۔”

ادھر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 27 جولائی 2023 کو کندھ کوٹ میں میڈیا سے بات چیت کے دوران ڈاکو راج کے بارے میں ایک اہم بیان دیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ”مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ ڈاکو اتنی جدید اور ملٹری اسلحہ کہاں سے حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ انتہائی سنگین مسئلہ ہے کہ وہ لوگ، جو ریاستی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں، اس طرح کے خطرناک ہتھیاروں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ ہمیں اس بات کی تحقیقات کرنی ہوگی کہ یہ اسلحہ کہاں سے آ رہا ہے اور کون ان مجرمانہ عناصر کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ ہم اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں گے اور عوام کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔”