انسانی حقوق کی تنظیموں نے شاہنواز کنبھر کی ہلاکت کی تفتیش کے لیے بنائی گئی کمیٹی مسترد کردی

انسانی حقوق کے تنظیموں اور سول سوسائٹی کے کارکنان نے ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کی ہلاکت پر سندھ کے وزیر داخلہ ضیا لنجار کی طرف سے تشکیل دی گئی پولیس انکوائری کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے حاضر سروس ہائی کورٹ کے جج سے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔
کراچی پریس کلب میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے افراد پر مشتمل جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے پریس کانفرنس کی۔
پریس کانفرنس سے نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی رکن برائے سندھ انیس ہارون، سندھ ہیومن رائٹس ڈیفینڈرز نیٹ ورک کے علی پلھ ایڈووکیٹ، خواتین حقوق کی کارکن شیریں اسد، عورت فاؤنڈیشن کی مہناز رحمان، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے قاضی خضر، اقلیتی حقوق کی کارکن غزالہ شفیق، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری ناصر منصور، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر مرزا علی اظہر ودیگر نے خطاب کیا۔
انہوں نے میرپورخاص پولیس کے ڈاکٹر شاہنواز کے پولیس مقابلے کو ’’جعلی‘‘ اور پولیس پر خاندان اور ملزم کے اعتماد کی خلاف ورزی قرار دیا۔
کارکنان نے کہا کہ توہینِ مذہب کے ملزم ڈاکٹر شاہنواز نے کراچی کے ایک ہوٹل میں پناہ لی تھی اور پولیس کی یقین دہانی پر عمرکوٹ پولیس کے سامنے سرنڈر کر دیا تھا، بعد ازاں عمرکوٹ اور میرپورخاص پولیس کے مشترکہ جعلی مقابلے میں مارے گئے جسکی قیادت ڈی آئی جی میرپور خاص نے کی۔
انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت سندھ اسمبلی میں سندھ کے وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے بھی تسلیم کی کہ انکی ہدایات پر ایس ایس پی عمرکوٹ ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے کراچی گئے تھے۔
یہ حقیقت اس بات کا ثبوت ہے کہ ملزم کیخلاف درج دونوں ایف آئی آرز (45/2024 سندھڑی پولیس اسٹیشن دفعہ 324، 353 اور 46/2024 سندھڑی پولیس اسٹیشن دفعہ 23 اسلحہ ایکٹ) جھوٹی تھیں۔
رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ سید سردار علی شاہ کا بیان پولیس کے سامنے دفعہ 161 ضابطہ فوجداری اور مجسٹریٹ کے سامنے دفعہ 164 ضابطہ فوجداری کے تحت گواہ کے طور پر ریکارڈ کیا جائے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ پولیس افسران کے خلاف دفعہ 302 تعزیرات پاکستان (قتلِ عمد) کے تحت مقدمہ درج کیا جائے اور مقتول کے خاندان کو انصاف فراہم کیا جائے۔