خواتین میہڑ کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے میدان میں آگئیں

میہڑ کو سیلاب سے بچانے کے لیے خواتین کے عمل کی تعریفیں کی گئیں—فوٹو: ٹوئٹر

سندھ کی بہادر خواتین اپنے شہر میہڑ کو سیلاب سے بچانے کے لیے گھروں سے نکل کر مرد حضرات کے شانہ بشانہ مٹی کے حفاظتی بند باندھنے کے لیے نکل آئیں مگر سندھ حکومت کو تاحال شرم نہ آئی۔

ضلع دادو کا تعلقہ ہیڈ کوارٹر میہڑ دادو شہر کے بعد ضلع کا دوسرا بڑا شہر ہے، جہاں 5 لاکھ افراد بستے ہیں اور یہ شہر ضلع کی معیشت میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے اور یہاں سیلاب کا دبائو گزشتہ 10 دن سے برقرار ہے مگر اس باوجود تاحال ضلعی انتظامیہ اور سندھ حکومت نے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے، جس وجہ سے وہاں کی بچیاں اور خواتین بھی اپنے شہر کو بچانے کے لیے گھروں سے نکل آئیں۔

میہڑ کی بچیاں اور خواتین بھی اپنے شہر کو بچانے کے لیے مرد حضرات کے ساتھ مل کر شہر کی حفاظتی کے لیے مٹی کا بند باندھتی دکھائی دیں اور لوگوں نے ان کی بہادری پر ان کی تعریفیں بھی کیں۔

میہڑ میں اگرچہ پہلے ہی بارشوں کا پانی موجود ہے، تاہم پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے آنے والے سیلاب کی وجہ سے ضلع دادو 70 فیصد ڈوب چکا ہے اور میہڑ کا قریبی شہر خیرپور ناتھن شاہ (کے این شاہ) بھی ڈوب چکا ہے۔

میہڑ کی طرح دادو کے ایک اور تعلقہ ہیڈ کوارٹر جوہی کو بھی سیلاب سے ڈوبنے کا خطرہ ہے اور وہاں بھی خواتین و بچیاں شہر کو بچانے کے لیے گھروں سے نکل آئیں۔

میہڑ کے گرد و نواح پہلے ہی سیلاب سے ڈوب چکے ہیں اور اب سیلاب کا پورا دبائو میہڑ شہر کی جانب ہے اور شہری اپنے شہر کو بچانے کے لیے مٹی کے حفاظتی بند باندھنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور وہاں کے سماجی ارکان اور صحافی بھی اس عمل میں عام شہریوں کے ساتھ شریک ہوگئے۔

علاوہ ازیں میہڑ کے رکن صوبائی اسمبلی فیاض بٹ کو بھی عوام کے ساتھ مٹی کا حفاظتی بند باندھتے ہوئے دیکھا گیا اور ان کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں، جس پر لوگوں نے ان کی تعریفیں بھی کیں۔

سیلاب کے سخت دبائو کے پیش نظر میہڑ شہر کے باہر موجود سرکاری عمارتوں، پیٹرول پیمپس اور تعلیمی ادارے ڈوب چکے ہیں جب کہ اس کا دوسرے شہروں سے زمینی رابطہ بھی ٹوٹ چکا ہے۔

کے این شاہ پہلے ہی ڈوب چکا ہے جب کہ میہڑ کا ایک اور قریبی شہر گاجی کھاوڑ بھی تین ستمبر کو ڈوب گیا اور اب سیلاب نے ضلع دادو کے بعد ضلع قمبر و شہدادکوٹ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور مزید کئی شہر ڈوبنے کے امکانات پیدا ہوچکے ہیں۔

بارشوں کے بعد سیلاب کے آنے کے باوجود تاحال سندھ حکومت نے کہیں بھی کسی بھی شہر میں کوئی حفاظتی اقدامات نہیں اٹھائے، جس وجہ سے صوبائی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور حکومت پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اس نے خود عالمی فنڈنگ حاصل کرنے کے لیے صوبے کو سیلاب سے ڈبویا۔