کورنگی کی فیکٹری میں ریپ کا کوئی واقعہ نہیں ہوا، سندھ پولیس

فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

سندھ پولیس نے تصدیق کی ہے کہ کراچی کے علاقے کورنگی میں واقع آرٹسٹک ملینرز فیکٹری میں گینگ ریپ کا کوئی واقعہ نہیں ہوا اور اس ضمن میں سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی خبریں بلیک میل کرنے کے لیے چلائی گئیں۔

ڈپٹی انسپٹکر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس ایسٹ کراچی مقدس حیدر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ دارالحکومت کی کسی بھی فیکٹری میں کوئی ریپ کا واقعہ نہیں ہوا۔

سندھ پولیس کے ٹوئٹر ہینڈل پر جاری کی جانے والی ویڈیو میں مقدس حیدر نے بتایا کہ مذکورہ واقعے سے متعلق گزشتہ چند دن سے سوشل میڈیا پر خبریں چل رہی تھیں اور ایسی خبروں کے بعد سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) سطح کے افسر نے بھی تفتیش کی مگر ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔

https://twitter.com/DMCSindhPolice/status/1567492853810487303

انہوں نے کہا کہ تفتیش میں مدد کے لیے دیگر تنظیموں نے بھی پولیس کا ساتھ دیا اور پولیس نے کمپنی انتطامیہ سے بھی پوچھ گچھ کی مگر ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

ان کے مطابق جہاں پولیس کو تحقیق کے دوران کچھ نہیں ملا، وہیں متاثرہ خاتون یا پھر ان کا کوئی رشتے دار بھی سامنے نہیں آیا تو ملزمان کو پکڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جو چیز ہوئی ہی نہیں تو اس کا علم کیسے لگایا جائے؟

یہ بھی پڑھیں: کراچی کی گارمنٹ فیکٹری میں مبینہ گینگ ریپ کے واقعے پر ٹوئٹر پر بحث  

انہوں نے کہا کہ وہ نجی فیکٹری کا نام نہیں لے سکتے، کیوں کہ شواہد کے بغیر کسی کو بدنام کرنا بھی غلط ہے۔

علاوہ ازیں سندھ پولیس کے ترجمان سہیل جوکھیو نے بھی اپنی ٹوئٹ میں بتایا کہ پولیس نے کورنگی کی فیکٹری سے متعلق چلائی جانے والی خبر کو جھوٹا قرار دیا ہے۔

اس سے قبل کورنگی کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) فیصل بشیر نے سوشل میڈیا پر زیر گردش خبروں کو ‘جھوٹا’ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسی خبریں پھیلانے کا کوئی ‘خفیہ مقصد’ ہو سکتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا تھا کہ ان خبروں کے خلاف فیکٹری انتظامیہ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ سے رابطہ کیا ہے۔

خیال رہے کہ ٹوئٹر پر 7 ستمبر کو ’آرٹسٹک ملینرز ریپ کیس کے نام سے ٹرینڈ ٹاپ پر رہا، جس میں ہزاروں افراد نے ٹوئٹس کیں کہ کورنگی کی گارمنٹ فیکٹری میں ایک خاتون کا گینگ ریپ کیا گیا ہے، جس سے وہ جاں بحق ہوگئیں۔

جہاں مذکورہ معاملے پر ہزاروں افراد نے غیر مصدقہ ٹوئٹس کیں، وہیں متعدد افراد نے پولیس اور انتظامیہ سے معلومات حاصل کرنے کے بعد مذکورہ خبر کو جھوٹا بھی قرار دیا اور بتایا کہ پولیس نے ایسے کسی بھی واقعے کی تردید کردی ہے۔