’ادھورا ادھوارا‘ شاعر آکاش انصاری گھر میں لگی آگ میں جھلس کر انتقال کر گئے

’اسیں رہیاسیں ادھورا ادھورا‘ سمیت دیگر متعدد گیت لکھنے والے شاعر، لکھاری، سیاسی و سماجی رہنما ڈاکٹر آکاش انصاری گھر میں لگی آگ میں جھلس کر جاں بحق ہوگئے۔

سرکاری خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان‘ (اے پی پی) کے مطابق حیدرآباد کے ہیپی ہوم میں ڈاکٹر آکاش انصاری کے گھر میں شارٹ سرکٹ سے آگ لگی، جس میں شاعر اور ان کے بیٹے شدید زخمی ہوئے۔

حکام کے مطابق ڈاکٹر آکاش انصاری موقع پر ہی جھلس کر جاں بحق ہوگئے جب کہ ان کے بیٹے کو تشویش ناک حالت میں دوسرے اسپتال منتقل کردیا گیا۔

ڈاکٹرز نے ضروری کارروائی کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کردیا اور ڈاکٹر آکاش انصاری کی لاش کو تدفین کے لیے ان کے آبائی شہر بدین بھیج دیا گیا۔

ڈاکٹر آکاش انصاری دسمبر 1956 میں ضلع بدین کے نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے، ان کا اصل نام اللہ بخش تھا، تاہم انہوں نے شاعرانہ نام آکاش رکھا۔

انہوں نے ثانوی تعلیم بدین سے حاصل کرنے کے بعد 1984 میں لیاقت میڈیکل کالیج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور ڈاکٹری پیشے سے وابستہ ہوگئے۔

ڈاکٹر آکاش انصاری کی شاعری کی دو کتابوں ’ادھورا ادھورا‘ اور ’کیسے رہوں جلا وطن‘ کا شمار سندھی ادب کی مشہور کتابوں میں ہوتا ہے، ان کے تراجم انگریزی سمیت دوسری زبانوں میں بھی ہوئے۔

ڈاکٹر آکاش انصاری کو مزاحمتی شاعری لکھنے پر شہرت حاصل رہی، انہوں نے ضیا الحق کے دور میں بھی مزاحمتی شاعری لکھی جب کہ وہ ہمیشہ وقت کے حکمرانوں کے خلاف مزاحمتی شاعری کرتے رہے۔

ڈاکٹر آکاش انصاری نے مزاحمتی شاعری میں عدالتی اور نظام انصاف کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جب کہ ان کے رومانوی گانے بھی متعدد فنکاروں نے گائے اور ان کے گانے ہر دور میں پسند کیے گئے۔

ڈاکٹر آکاش انصاری کے آگ میں جھلس کر جاں بحق ہونے پر وزیر اعلیٰ سندھ، وزیر ثقافت سندھ سمیت سیاسی و ادبی شخصیات نے اظہار افسوس کرتے ہوئے ان کی مغفرت کی دعائیں کیں۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے معروف سندھی شاعر ڈاکٹر آکاش انصاری گھر میں آتشزدگی کے باعث جاں بحق ہونے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے انتظامیہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس واقعے کی فوری تحقیقات کرے اور مکمل رپورٹ پیش کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر آکاش انصاری کی ادبی اور ثقافتی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، وہ سندھی ادب کے ایک روشن ستارہ تھے جن کی شاعری نے عوام کے دلوں میں جگہ بنائی۔

ڈاکٹر آکاش انصاری نے ابتدائی تعلیم بدین میں مکمل کی، جس کے بعد لیاقت میڈیکل کالج (یونیورسٹی) سے ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کی، انہوں نے کالج کے دنوں سے ہی شاعری شروع کردی تھی۔

ڈاکٹر آکاش انصاری نے بطور صحافی بھی خدمات انجام دیں جبکہ اپنے ضلع میں تعلیم کی بہتری کیلئے ’’بدین رورل ڈیولپمنٹ‘‘ کے نام سے سوشل آرگنائزیشن قائم کی۔

ڈاکٹر سحر گل نے ڈاکٹر آکاش انصاری کی 34 منتخب نظمیں انگریزی زبان میں ترجمہ کر کے مختلف عنوانات سے شائع کیں۔