سندھو دریا سے کینال نکالنے کے خلاف وکلا کا کراچی میں احتجاج

سندھو دریا سے چھ نہریں نکالنے کے وفاقی حکومت کے سندھ دشمن منصوبے خلاف کراچی، حیدرآباد اور میرپور خاص ڈویژن کے وکلا کا احتجاجی قافلہ 8 مارچ کی شام کراچی پریس کلب پہنچا۔

حیدرآباد، بدین، میرپورخاص، جامشورو، ملیر، ٹھٹہ اور کراچی کے مختلف اضلاع کے وکلا پر مشتمل قافلے شاہراہ فیصل پر ایف ٹی سی فلائی اوور کے قریب جمع ہوئے اور پھر وہاں سے ایک قافلے کی صورت میں احتجاج کے مقام کراچی پریس کلب پہنچے، جس سے ٹریفک بھی جام ہوگیا

یہ احتجاج کراچی بار ایسوسی ایشن اور حیدرآباد بار کونسل نے مشترکہ طور پر مجوزہ نہری منصوبوں، 26ویں آئینی ترمیم، سندھ کی اراضی کارپوریٹ فارمنگ کے لیے دینے اور پیکا ایکٹ کے خلاف دیا تھا۔

صوبے کی مختلف ضلعی بارز سے تعلق رکھنے والے وکلا کے قافلے شاہراہ فیصل پر ایف ٹی سی فلائی اوور پر پہنچے جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دستے پہلے سے تعینات تھے اور کنٹینرز بھی کھڑے تھے۔

وکلا نے پولیس اور ضلعی انتظامیہ سے کامیاب مذاکرات کیے، جس کے تحت انہیں لائنز ایریا کے راستے پریس کلب کی طرف جانے کی اجازت دی گئی۔

جاوید قاضی، سجاد چانڈیو، اصغر ناریجو، عاقب راجپر، اشرف سموں، عابد خان جتوئی، سمیر میمن اور دیگر وکلا کی قیادت میں مارچ پریس کلب پہنچا۔

وکلا نے وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کے خلاف نعرے لگائے اور نہری منصوبوں کی مزاحمت کرنے کا عزم کیا۔

وکلا نے وزیر اعظم شہباز شریف پر بھی تنقید کی، انہوں نے الزام لگایا کہ ملک میں ون یونٹ نافذ کر دیا گیا۔

وکلا نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی لازمی منظوری کے بغیر متنازع منصوبوں پر تعمیراتی کام تقریباً آدھا مکمل ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کے عوام ایسے نہری منصوبوں کو مسترد کرتے ہیں اور اس کی مزاحمت کریں گے۔

پریس کلب پر خطاب کرتے ہوئے وکلا نے کہا کہ ‘ہم 2007 کے وہی وکلا ہیں اور ہمارے دشمن بھی وہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 26ویں ترمیم کے ذریعے عدالتی نظام کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ پر چھ نہروں کی تعمیر اور ہزاروں ایکڑ اراضی کارپوریٹ فارمنگ کے لیے دینا سندھ کے ‘اقتصادی قتل’ کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمرکوٹ ضلع میں 190000 ایکڑ سے زائد اراضی ‘گرین پاکستان انیشی ایٹو’ کو دی جا رہی ہے جسے روکا جانا چاہیے۔ وکلاء رہنماؤں نے کہا کہ دریائے سندھ پر چھ نہروں کی تعمیر سندھ پر ‘ایٹم بم پھینکنے’ کے مترادف ہے۔

وکلا نے سندھ صوبے کے مختلف علاقوں میں کارپوریٹ فارمنگ کے لیے 52 ہزار اور 14 ہزار ایکڑ اراضی دینے کے نوٹیفیکیشن واپس لینے کا بھی مطالبہ کیا۔ وکلاء نے ‘جبری گمشدگیوں’ کے خاتمے کا بھی مطالبہ کیا۔ وکلا نے پیکا ایکٹ اور جامعات کے وی سیز میں بیوروکریٹس کی تقرری کی بھی مذمت کی۔

بعد ازاں وکلا نے پُرامن طریقے سے احتجاج کو ختم کردیا اور ٹریفک کی روانی بحال ہوگئی۔