سندھ صحافیوں کے لیے خطرناک صوبہ، ایک سال میں تین صحافی قتل، فریڈم نیٹ ورک

پاکستان میں صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کےلئے کام کرنےوالی عالمی ایوارڈ یافتہ تنظیم’’ فریڈم نیٹ ورک‘‘ نے اپنی سالانہ رپورٹ ’’ فریڈم آف ایکسپریشن اینڈ میڈیا فریڈم‘‘ 2025 جاری کردی، جس میں سندھ کو صحافیوں کے لیے خطرناک صوبہ قرار دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ایک سال میں سندھ کے اندر تین صحافیوں کو قتل کیا گیا جب کہ متعدد بھی حملے کیے گئے۔
گزشتہ ایک سال کے اندرسندھ میں نصراللہ گڈانی، بچل گھنیو اور اے ڈی شر کو قتل کیا گیا جب کہ متعدد صحافیوں پر حملے بھی کیے گئے۔
’’ فریڈم نیٹ ورک‘‘ نے پاکستان میں میڈیا کے وجود اور اس وابستہ پیشہ ور صحافیوں کی ملازمتوں ، ان کی پیشہ ورانہ سالمیت کو درپیش خطرات اور چیلجنز پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تجویز بھی دی ہے کہ ملک میں "آزادی اظہار رائے کی آئینی ضمانت اور شہریوں کے بنیادی حقوق پر اثر انداز ہونے والی پالیسیوں اور ریاستی اقدامات کے ساتھ اختلاف رائے کے اظہار کے حق کے تحفظ کے لئے”قومی تحریک” شروع کی جائے اور اس تحریک کو مضبوط اور فعال بنانے کے لئے عوامی اور سول سوسائٹی کے کردار کو متحرک کیاجائے۔
عدنان رحمت اور اقبال خٹک کی تحریر کردہ اس رپورٹ میں مئی 2024 سے اپریل 2025 کے دوران پاکستان میں آزادی اظہار اور میڈیا کی آزادی کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
قاتلانہ حملے میں زخمی گھوٹکی کے صحافی نصراللہ گڈانی انتقال کر گئے
رپورٹ کے مطابق رپورٹ کی تیاری کے عرصے کے دوران ملک میں پانچ صحافی پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کےدوران مارے گئے جن میں صوبہ سندھ میں تین اور صوبہ خیبر پختونخوا میں دو صحافی جان سے گئے جبکہ اسی عرصے کے دوران کم از کم 82 صحافیوں اور دیگر میڈیا پروفیشنلز کو مختلف قسم کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
پورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا صحافیوں کے لئے سب سے خطرناک صوبہ کے طور پر ابھرا جہاں 22 مقدمات درج کیے گئے، دوسرے نمبر پر اسلام آباد میں صحافیوں کےخلاف 20 مقدمات درج کیے گئے۔
گھوٹکی میں تین ماہ کے اندر دوسرا صحافی قتل، بچل گھنیو حملے میں جاں بحق
تیسرے نمبر پر پنجاب میں 18 مقدمات درج کئے گئے ،اسی طرح بلوچستان میں چار اور آزاد جموں و کشمیر میں ایک کیس ریکارڈ کیا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم از کم 14 صحافیوں کو قانونی مقدمات کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سے زیادہ تر پیکا قانون کے تحت درج شدہ مقدمات تھے ،رپورٹ کے مطابق آٹھ دیگر مقدمات میں صحافیوں کو قانونی مقدمات کے تحت گرفتار یا حراست میں لیا گیا.
رپورٹ میں میڈیا کے اندر خواتین کی انتہائی کم نمائندگی کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستانی میڈیا میں خواتین کی نمائندگی میں وقت کے ساتھ ساتھ بہتری آئی لیکن زیر غور عرصے میں نمایاں عدم مساوات برقرار رہی۔
رپورٹ کے نتائج میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ اعداد و شمار کے لحاظ سے میڈیا میں خواتین کی نمائندگی ناکافی ہے لیکن پرنٹ، ٹیلی ویژن، ریڈیو اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سمیت میڈیا کی مختلف شکلوں میں خواتین فعال طور پر حصہ لے رہی ہیں۔