سندھ یونیورسٹی کی طالبات کو مبینہ دھمکیاں دینے پر امر سندھو نے وضاحت دے دی

IMG-20250517-WA0052

سندھ یونیورسٹی کی طالبات کی جانب سے الزامات لگائے جانے کے بعد یونیورسٹی کی پروفیسر امر سندھو نے وضاحت جاری کرتے ہوئے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔

ان پر سندھ یونیورسٹی کی مارئی ہاسٹل میں رہائش پذیر طالبات نے الزامات لگائے تھے کہ امر سندھو انہیں دھمکا رہی ہیں کہ وہ ہاسٹل پرووسٹ ناہید آرائیں کے خلاف مظاہرہ نہ کریں۔

طالبات نے الزامات عائد کیا تھا کہ امر سندھو نے انہیں دھمکیاں دیں کہ آپ کی لاش بھی ہاسٹل کے پنکھوں پر لٹکی ملیں گی یا آپ کی ویڈیوز بھی ورثا کو بھجوا دی جائیں گی۔

طالبات نے امر سندھو پر اس وقت الزامات لگائے تھے جب طالبات پہلے ہی مارئی ہاسٹل کی منتظمہ ناہید آرائیں کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔

طالبات نے ناہید آرائیں کے رویے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ انہیں ہراساں کرتی ہیں، ہاسٹل میں مناسب خوراک اور پانی تک میسر نہیں کیا جاتا جب کہ سیکیورٹی کے معاملات بھی انتہائی خراب ہیں۔

طالبات کے احتجاج کے بعد یونیورسٹی انتطامیہ نے ہاسٹل منتظمہ ناہید آرائیں کو ہٹاکر ان کے خلاف تفتیش کے لیے امر سندھو سمیت چار پروفیسرز پر مشتمل تفتیشی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس کے بعد طالبات نے امر سندھو پر دھمکیاں دینے کے الزامات عائد کیے تھے۔

اب امر سندھو نے طالبات کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر طویل جواب دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر پوسٹ شیئر کردی۔

امر سندھو نے فیس بک پر جاری کیے گئے اپنے بیان میں لکھا کہ میں واضح طور پر بتانا چاہتی ہوں کہ ماروئی ہاسٹل کے معاملے سے میرا قطعی کوئی تعلق نہیں، میرے بارے میں جو افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں وہ سراسر بے بنیاد اور جھوٹی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ افواہیں وہی افراد یا گروہ پھیلا رہے ہیں جنہوں نے پہلے بھی سوشل میڈیا پر ایک 17 سالہ لڑکے کو میرا بیٹا قرار دے کر میری ساکھ کو بدنام کرنے کی کوشش کی تھی۔

امر سندھو نے لکھا کہ میرے خلاف میڈیا مہم کوئی نئی بات نہیں، تاہم، اس بار طلبہ کو میرے خلاف اکسانے کے لیے ایک جھوٹی کہانی تیار کی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں یونیورسٹی انتطامیہ نے مارئی ہاسٹل طالبات کے خدشات سننے والی چار رکنی کمیٹی کا رکن بنایا تھا، کمیٹی کا مقصد لڑکیوں میں بے چینی کے حقائق کو سمجھنا تھا، میں نے ہمیشہ خود کو غیر تدریسی یونیورسٹی کے معاملات سے دور رکھا ہے اور کسی بھی انتظامی یا بااختیار عہدے پر فائز ہونے میں میری کوئی دلچسپی نہیں رہی۔

امر سندھو نے لکھا کہ افسوس کی بات ہے کہ میرا نام اس تنازع میں بلا ضرورت گھسیٹا گیا، طلبہ کا دھرنا اس وقت شروع ہوا جب میں ابھی حیدرآباد کے راستے میں تھی، کمیٹی کی جانب سے طالبات سے ملاقات سے قبل ہی ان پر الزامات لگانا شروع کیے گئے۔

سندھ یونیورسٹی کی پروفیسر نے لکھا کہ یونیورسٹی انتطامیہ نے چار رکنی کمیٹی کو ہدایت کی تھی کہ وہ شفافیت اور باخبر فیصلہ سازی کو یقینی بنانے کے لیے جلد اپنی رپورٹ پیش کرے، میں یہ سمجھنے میں ناکام ہوں کہ اس سرکاری مشق میں کیا غلط تھا؟

انہوں نے لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ شاید کچھ افراد طالبات کے حق میں فیصلہ آنے کے حق کی وجہ سے توجہ ہٹانے یا وسیع تر ہمدردی حاصل کرنے کے لیےایک نئی کہانی بنا کر انہیں بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے خود پر لگائے گئے تمام الزامات مسترد کیے اور لکھا کہ وہ خود پر لگائے گئے تمام الزامات کو قطعی طور پر مسترد کرتی ہیں۔

امر سندھو نے لکھا کہ جو کوئی بھی مجھے جانتا ہے، چاہے دوست ہو، ساتھی ہو یا حتیٰ کہ ناقد ہو وہ اس بات سے اتفاق کرے گا کہ میں کسی بھی صورت میں کسی بھی عورت کے خلاف کبھی بھی توہین آمیز زبان استعمال نہیں کر سکتی، میں خواتین کے حقوق پر پختہ یقین رکھتی ہوں اور اپنی زندگی، وقت اور ذہنی سکون خاص طور پر سندھ کی خواتین کی وکالت کے لیے وقف کر چکی ہوں اور ہاں میں نے اس کی قیمت بھی چکائی ہے۔