سندھ پولیس نے مورو دھرنے کے مقتول عرفان لغاری کی لاش ورثا سے کیوں چھینی؟

ضلع نوشہروفیروز کے علاقے مورو احتجاج کے دوران زخمی ہونے والے سیاسی کارکن عرفان لغاری کے انتقال کے بعد پولیس نے ان کی لاش ورثا کو دینے کے بجائے اپنی تحویل میں حیدرآباد سے مورو منتقل کی، جس پر سندھ بھر کے سیاسی و سماجی رہنماوؐں کی جانب سے اظہار برہمی کیا جا رہا ہے۔
عرفان لغاری 20 مئی کو مورو میں سندھو دریا سے کینالز نکالنے اور کارپوریٹ فارمنگ کے تحت سندھ کی زمینیں دینے کے خلاف نکالے گئے احتجاج میں شریک تھے، جہاں گولی لگنے سے وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔
عرفان لغاری تین دن تک اسپتالوں میں زندگی اور موت کی جنگ لڑتے رہے اور 23 مئی کی سہ پہر کو وہ حیدرآباد سول اسپتال میں انتقال کر گئے تھے۔
ان کے پوسٹ مارٹم کے بعد جب ورثا ان کی لاش آبائی گاؤں مورو کے قریب لغاری بجارانی لے جانے کی تیاریاں کر رہے تھے، تب پولیس نے اسپتال میں آکر ورثا سے لاش چھینی اور سخت سیکیورٹی میں اسے مورو منقل کیا۔
پولیس کی جانب سے عرفان لغاری کی لاش کو چھیننے پر سندھ بھر کے سیاسی و سماجی رہنماؤں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے سخت اظہار برہمی کیا جا رہا ہے۔
سندھی اخبار روزنامہ ’کاوش‘ کے مطابق پولیس نے حیدرآباد سول اسپتال پہنچ کر عرفان لغاری کی لاش کو تحویل میں لیا اور اسے اپنی نگرانی میں لغاری بجارانی منتقل کیا۔
اخبار نے اپنی ایک اور رپورٹ میں بتایا کہ مقتول کی لاش گاؤں پہنچنے کے بعد ورثا خواتین نے ان کی لاش لینے سے انکار کیا۔
مقتول کی خواتین ورثا کے مطابق پولیس نے خاندان کے تمام مرد افراد کو گرفتار کرلیا، لاش خواتین وصول کرکے کیا کریں گی؟
خواتین کا کہنا تھا کہ پولیس نے تمام مردوں کو گرفتار کرکے غائب کردیا، اب مقتول کی لاش کی تدفین کون کرے گا؟ اس لیے پولیس خود جاکر لاش کو دفنائے۔
روزنامہ ’پنھنجی اخبار‘ نے بھی اپنی رپورٹ میں بتایا کہ عرفان لغاری کی لاش کو پولیس حیدرآباد سے مورو لائی لیکن خواتین ورثا نے لاش وصول کرنے سے انکار کرتے ہوئے خاندان کے تمام گرفتار کیے گئے مردوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔
روزنامہ ’عوامی آواز‘ کے مطابق پولیس کی جانب سے حیدرآباد سول اسپتال سے پولیس کی جانب سے لاش کو لے جانے پر اسپتال میدان جنگ بن گیا، پولیس اور سیاسی کارکنان میں جھڑپیں ہوئیں، پولیس نے 20 سے زائد مرد و خواتین کارکنان کو گرفتار کرکے غائب کردیا۔