قیام پاکستان سے قبل بنی سندھی ادبی سنگت ایک ہوگئی

IMG-20230925-WA0003

ارمان سرمد                             

قیام پاکستان سے قبل بنائی گئی سندھی ادیبوں اور لکھاریوں کی سب سے بڑی ادبی تنظیم سندھی ادبی سنگت تقریبا 6 سال بعد ایک بار پھر ایک ہوگئی۔

سندھی ادبی سنگت 2017 میں ہونے والے تنظیمی انتخابات کے بعد دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی، ایک حصے کے سیکریٹری جنرل احمد سولنگی اور دوسرے حصے کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر ذوالفقار سیال بن گئے تھے۔

اسی طرح گزشتہ 6 سال سے سندھی ادبی سنگت دو حصوں میں تقسیم تھی اور اس کے سندھ بھر میں موجود ووٹرز دو الگ الگ گروپس کو تقسیم کرتے آ رہے تھے، جس سے ادبی حلقوں میں پریشانی اور مایوسی پھیلی ہوئی تھی۔

لیکن سندھ کے سینیئر ادیبوں، دانشوروں، لکھاریوں اور ادب سے دلچسپی رکھنے والے افراد کی کوششوں سے سندھی ادبی سنگت اب ایک بار پھر ایک ہوگئی۔

سندھی ادبی سنگت کے ایک حصے کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مشتاق پھل نے اپنے دھڑے کو تحلیل کرتے ہوئے اپنے دھڑے کو سیکریٹری جنرل تاج جویو کے دھڑے میں ضم کردیا۔

یعنی اب ایک بار پھر سندھی ادبی سنگت ایک ہی دھڑا بن گئی، جس کے مارچ 2024 تک تاج جویو سیکریٹری جنرل ہوں گے اور مارچ میں ہی نئے انتخابات کروائے جائیں گے، جس دوران نئی باڈی کو منتخب کیا جائے گا۔

سندھی ادبی سنگت کی سندھ بھر میں 231 شاخیں ہیں، یعنی مذکورہ تنظیم کی شہروں، قصبوں اور دیہات میں 213 باڈیاں ہیں جو ادبی تقاریب کا اہتمام کرتی ہیں اور ہر باڈی کے سالانہ انتخابات ہوتے ہیں، جہاں سیکریٹری سمیت دیگر عہدیداروں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

صوبے بھر میں سندھی ادبی سنگت کے 500 سے زائد مرکزی ارکان ہیں جو مرکزی سیکریٹری جنرل کے انتخاب کے لیے ووٹ کاسٹ کرتے ہیں، یہ ارکان ہر شاخ کے سیکریٹریز اور دیگر عہدیدار ہوتے ہیں۔

سندھی ادبی سنگت کو ایشیا کی سب سے بڑی ادبی تنظیم بھی کہا جاتا ہے، اس کا قیام اپریل 1947 میں ہندو سندھی ادیب و لکھاری گوبند مالھی نے کیا تھا اور وہ کراچی شاخ کے پہلے سیکریٹری جنرل بنے تھے۔

گوبند مالھی کی جانب سے سندھی ادبی سنگت کا بنیاد رکھے جانے کے بعد اس کی شاخیں صوبے بھر میں بنتی گئیں اور اب صوبے کے تمام اضلاع کے تمام تحصیلوں میں اس کی کم از کم ایک شاخ موجود ہے، یعنی مذکورہ ادبی تنظیم کی ہر تحصیل میں کم از کم ایک باڈی موجود ہے۔

سندھی ادبی سنگت میں سندھ بھر کے آج تک کے تمام بڑے شاعر، لکھاری، افسانہ نگار اور نثر نویس شامل رہے ہیں لیکن اس میں ہونے والے اختلافات کی وجہ سے نئی نسل اس سے دور ہوتی جا رہی ہے۔