پی پی ایف کا سندھ میں صحافیوں کے تحفظ کا قانون فعال کرکے حملوں کے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ

IMG-20250501-WA0002

صحافیوں کے تحفظ پر کام کرنے والی تنظیم پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) نے ’ورلڈ پریس فریڈم ڈے‘ کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین پر موثر انداز میں عمل کرواکر صحافیوں کے قتل اور حملوں میں ملوث ملزمان کو سزا دلائے۔

پی پی ایف کی جانب سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں گزشتہ ایک سال کے اندر سندھ میں قتل کیے جانے والے صحافیوں سمیت صحافتی اداروں کی بندش اور میڈیائی اداروں کے اشتہارات کو روکنے پر بھی بات کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق سال 2025 میں پی پی ایف نے جنوری تا اپریل کے دوران کم از کم 34 واقعات ریکارڈ کیے، جن میں سات مقدمات کا اندراج، ایک ہتکِ عزت کا نوٹس، ایف آئی اے کی جانب سے تین طلبی نوٹسز، دو گرفتاریاں، چار حراستیں، دو اغوا، چھ حملے، دو مارپیٹ کے واقعات، دو پراپرٹی پر حملے بشمول ایک چھاپہ، تین دھمکیاں جن میں قانونی کارروائی اور اہلِ خانہ کو دھمکیاں دینے سمیت دو آن لائن ہراسانی کے کیسز شامل ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ مارچ میں دو صحافیوں رفتار کے سی ای او فرحان ملک اور اسلام آباد کے صحافی وحید مراد کی گرفتاری ایف آئی اے کے سخت رویے کی واضح مثال ہے۔ فرحان ملک کو زبانی طلبی کے بعد دفتر میں پیش ہونے پر گرفتار کیا گیا، جبکہ وحید مراد کو ان کے گھر سے اٹھایا گیا اور ان کے خلاف فوجداری شکایت درج کی گئی۔

رپورٹ میں مڈیائی ادااروں کے اشتہارات کی بندش کا حوالہ بھی دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اشتہارات کو بند کرکے میڈیائی اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق انگریزی روزنامہ ڈان کو اشتہارات سے محروم کرنے اور روزنامہ صحافت کو وزارتِ اطلاعات کی جانب سے اشتہارات کی بندش جیسے واقعات مالی طور پر مذکورہ میڈیا اداروں کو کمزور کرنے کی کوششوں کو اجاگر کرتے ہیں۔

پی پی ایف کے مطابق سال کا آغاز جنوری میں پاکستان الیکٹرانک کرائمز ترمیمی ایکٹ 2025 کی منظوری سے ہوا، جس کی پہلے ہی سے مخالفت کی جا رہی تھی۔ اس قانون نے صحافیوں کے لیے قانونی نتائج کے خدشات کو مزید سنگین بنا دیا، خاص طور پر آن لائن رپورٹنگ کے حوالے سے۔ اس کے بعد سے ترمیم شدہ سائبر کرائم قانون کی مختلف دفعات کے تحت میڈیا سے وابستہ افراد کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے گئے، جن میں دفعہ 26-اے بھی شامل ہے، جو جھوٹی یا گمراہ کن معلومات سے متعلق ہے اور تین سال تک قید، دو ملین روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں مقرر کرتی ہے۔

ادارے نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا کہ 2024 میں، جو کہ انتخابی سال تھا، اظہارِ رائے پر قابو پانے کے لیے سیاسی احتجاج، انٹرنیٹ کی بندش، اور ایسے قوانین و ضوابط متعارف کروائے گئے جنہوں نے اظہار پر نگرانی بڑھا دی۔

سندھ صحافیوں کے لیے خطرناک صوبہ، ایک سال میں تین صحافی قتل، فریڈم نیٹ ورک

جنوری تا دسمبر 2024 کے دوران، پی پی ایف نے کم از کم 168 حملے ریکارڈ کیے، جن میں دو صحافیوں کے قتل، 76 جسمانی حملے، چار اغوا، 12 املاک پر حملے، پانچ گرفتاریاں، 12 حراستیں، 15 مقدمات کا اندراج، ایف آئی اے کی 8 کارروائیاں اور دو دیگر قانونی اقدامات، دو افراد کے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام ڈالنے، 15 آن لائن ہراسانی، پانچ دھمکیاں، اور 31 سینسرشپ کے واقعات شامل ہیں۔

سینسرشپ کے واقعات میں 19 انٹرنیٹ، موبائل یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی معطلی جیسے اقدامات بھی شامل ہیں جن میں ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کی بندش بھی شامل ہے، پیمرا کے چار سخت احکامات، اور آٹھ دیگر اقدامات جنہیں سینسرشپ کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے؛ جب کہ خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کی طرف سے صحافیوں کے خلاف بیانات بھی سامنے آئے۔

رپورٹ کو جاری کرتے ہوئے پی پی ایف نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ میڈیا کو پالیسی سازی اور قانون سازی میں ایک بنیادی فریق کے طور پر شامل کرے تاکہ ایسے خطرناک قوانین جیسے کہ پیکا جن کے منفی اثرات اب واضح ہو رہے ہیں، نافذ نہ کیے جائیں۔ میڈیا پر اثرات کو قانون سازی کے بعد کا معاملہ نہ بنایا جائے۔ ترمیمات پر شدید اعتراضات کے باوجود حکومت کی جانب سے ان کو لاگو کرنے کا فیصلہ اس کے ارادوں پر سوال اٹھاتا ہے۔

پی پی ایف نے زور دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ میڈیا کے خلاف تشدد کرنے والوں کو حاصل مکمل استثنیٰ کو ختم کرنے کے لیے ملک میں پہلے سے موجود میڈیا سیفٹی قوانین جیسے "تحفظِ صحافی و میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021” (وفاقی) اور "تحفظِ صحافی و دیگر میڈیا کارکنان ایکٹ 2021” (سندھ) — کو مؤثر انداز میں نافذ کیا جائے۔ یہ ناقابل قبول ہے کہ صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان پر ہونے والے حملوں کے ذمہ داران کو سزا نہیں ملتی، اس لیے قوانین کو سختی سے نافذ کرکے صحافیوں کے قتل اور حملوں میں ملوث ملزمان کو سزا دلوائی جائے۔