زینب بھیو ریپ کیس کا معاملہ ایک کروڑ روپے میں طے، ملزمان بری
زینب بھیو کیس کئی سال تک ہائی پروفائل کیس بنا رہا—فائل فوٹو: فیس بک
ایک دہائی قبل گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی طالبہ زینب بھیو ریپ کیس میں اہم موڑ سامنے آگیا، طالبہ کے گینگ ریپ اور اس کی نازیبا ویڈیو بناکر اسے وائرل کرنے والے تمام ملزمان عدالت سے بری ہوگئے۔
خیال رہے کہ کھپرو کی رہائشی زینب بھیو کے ساتھ گینگ ریپ کا واقعہ 2010 میں پیش آیا تھا اور اس کا کیس کئی سال تک ماتحت عدالتوں سمیت ہائی کورٹ میں بھی چلتا رہا اور تین سال قبل عدالت نے ریپ میں ملوث ملزمان کو سزائے موت سنائی تھی۔
سال 2019 میں ایڈیشنل سیشن جج کھپرو عنایت اللہ بھٹو کی عدالت نے 2010 میں کھپرو کی طالبہ زینب بھیو کو گینگ ریپ کا نشانہ بناکر وڈیو وائرل کرنے والے مجرمان جہانزیب قائم خانی، دانش قائم خانی اور وسیم قائم خانی کو موت کی سزا سنائی تھی جبکہ مجرم سہیل قائم خانی کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
مقدمہ زینب کے چچا ڈاکٹر امین بھیو کی مدعیت میں 2010 میں کھپرو پولیس اسٹیشن میِں درج کیا گیا تھا اور یہ واقعہ بھی ہائی پروفائل بن گیا تھا۔
اس مقدمے کے گواہ خدا بخش بھیو نے مبینہ طور پر خودکشی کرلی تھی جب کہ بھیو برادری کے سرادر بابل بھیو نے ملزمان کے والدین قائم خانی برادری پر ایک جرگہ کرکے ایک کروڑ روپے لیے تھے۔
اور اب مقامی عدالت نے متاثرہ لڑکی زینب بھیو اور مدعی ڈاکٹر امین بھیو کی جانب سے بیانات تبدیل کرنے کے بعد ملزمان کو بری کردیا۔
روزنامہ پنھنجی اخبار کے مطابق بابل خان بھیو کی جانب سے جرگہ کیے جانے کے بعد ہی لڑکی کے چچا نے بیان تبدیل کردیا تھا مگر متاثرہ لڑکی نے بیانات تبدیل کیے تھے مگر اب انہوں نے بھی بیان تبدیل کردیا، جس کے بعد مقامی عدالت نے تمام ملزمان کو بری کردیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ بابل بھیو نے ایک کروڑ میں سے 30 لاکھ روپے اپنے حصے کے رکھے تھے اور 70 لاکھ مقدمہ دائر کرنے والے ڈاکٹر امین بھیو کو دیے تھے، جنہوں نے فوری طور پر بیان بدلا تھا مگر لڑکی نے بیان بدلنے میں 4 سال لگائے اور اب انہوں نے بھی اپنا بیان تبدیل کردیا، جس کے بعد عدالت نے ملزمان کو بری کردیا۔