گھوٹکی میں معذور شخص عباس کلوڑ توہین مذہب کے الزام میں قتل
عباس کلوڑ دونوں بازوں سے محروم تھے—فوٹو: فیس بک
شمالی سندھ کے ضلع گھوٹکی کی تحصیل میرپور ماتھیلو میں ایک جنونی شخص نے معذور نوجوان کو توہین مذہب کے الزام میں پہلے آگ لگاکر زندہ جلانے کی کوشش کے بعد پانی میں غوطے دے کر ہلاک کردیا۔
توہین مذہب کے الزام میں قتل کیے گئے محمد عباس کلوڑ کے دونوں بازوں نہیں تھے، وہ تمام کام اپنے پیروں کی مدد سے کرتے تھے۔
وہ علاقے کی مشہور درگاہ لال پر مجاوری کرتے تھے، وہ معذور ہونے کے باوجود درگاہ پر ماتھا ٹیکتے اور وہاں آتے جاتے لوگوں کی توجہ کا مرکز رہتے۔
عباس کلوڑ کی معذوری اور درگاہ کی مجاوری پر ماضی میں ٹی وی چینلز اور اخبارات ان کی زندگی پر کہاںیاں شائع اور نشر بھی کر چکے ہیں اور علاقہ مکین بھی انہیں اچھی شخصیت کا مالک قرار دیتے رہے ہیں۔
انہیں توہین مذہب کے الزام میں قتل کیے جانے کے بعد لوگ سوشل میڈیا پر ان کے انٹرویوز کی تصاویر اور ویڈیوز کلپس شیئر کرکے ان سے معافی مانگتے دکھائی دیے اور اپنی پوسٹس میں لکھا کہ وہ انہیں بچا نہ پانے پر شرمندہ ہیں۔
انہیں دو روز قتل یکم اکتوبر کو اپنے گائوں میں ہی قتل کیا گیا اور انہیں توہین مذہب کے الزام میں ہلاک کرنے والے ملزم ان کے گائوں کے ہی ہیں جو کہ مدرسے کے طالب علم بتائے جاتے ہیں۔
میرپورماتھیلو تھانے میں درج واقعے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں مقتول محمد عباس کلوڑ کے بھائی سرفراز علی کلوڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے معذور بھائی کو کچھ دن قبل ملزم نے جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔
بی بی سی اردو نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مقدمے میں ان کے بھائی نے بتایا کہ ایک ہفتہ قبل ملزم محمد حسن کلوڑ درگاہ لال شاہ پر ان کے بھائی مقتول عباس کلوڑ کے پاس آیا تھا اور کہا تھا کہ تم یہ جو قبروں پر سجدے کرتے ہو برائے مہربانی درگاہ کو چھوڑو ورنہ میں تمہیں مار دوں گا۔‘
ایف آئی آر میں سرفراز کلوڑ نے بتایا ہے کہ ’سنیچر کی صبح نو بجے ہم درگاہ کے پاس کھڑے تھے کہ ملزم محمد حسن اور ایک نامعلوم شخص آیا ان میں سےحسن کلوڑ کے ہاتھ میں بوتل تھی جس میں پیٹرول تھا اس نے عباس کو مخاطب ہوکر کہا کہ تمہیں کہا تھا نا درگاہ کی مجاوری کرنا چھوڑ دو مگر تم نہ مانے اب تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔‘
مقتول کے بھائی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ‘ملزم نے میرے بھائی پر پیٹرول چھڑکا اور جو ساتھ میں نامعلوم شخص تھا اس سے آگ لگانے کے لیے ماچس نکالی میرا بھائی خوف سے بھاگا، انھوں نے اس کا پیچھا کیا وہ پانی کے تالاب میں گرگیا، اس کو انھوں نے ہمارے سامنےغوطے دے کر ہلاک کیا، ہم لاش لے کر ہسپتال گئے جہاں پوسٹ مارٹم کرایا گیا۔‘
مذکورہ واقعے پر گھوٹکی پولیس نے بتایا کہ ملزم کو گرفتار کرلیا گیا ہے، جنہوں نے مقتول کو توہین مذہب کے الزام میں قتل کرنے کا دعویٰ کیا ہے مگر پولیس مختلف رخوں سے کیس کی تفتیش کر رہی ہے اور علاقہ مکینوں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے جا رہے ہیں۔
مذکورہ واقعے کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے، جس میں ملزم کو مقتول کو پانی میں غوطے دے دے کر مارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی ملزم دھڑلے سے کہتا سنائی دیتا ہے کہ وہ کہیں نہیں بھاگے گا، انہوں نے توہین مذہب کے الزام میں عباس کلوڑ کو قتل کیا ہے، پولیس بھلے آئے، وہ گرفتاری سے نہیں ڈرتا۔
عباس کلوڑ کا تعلق گائوں صدیق کلوڑ سے تھا جب کہ انہیں توہین مذہب کے الزام میں قتل کرنے والے ملزم محمس حسن کلوڑ بھی اسی گائوں کے رہائشی ہیں اور وہ سکھر کے کسی مدرسے کے طالب علم بتائے جاتے ہیں۔
معذور شخص کے توہین مذہب کے الزام میں قتل کے واقعے کے بعد سندھ بھر میں غم و غصے کی لہر ہے اور لوگوں نے واقعے کی سوشل میڈیا پر شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے ملزم کو سخت سے سخت سزا دلوانے کا مطالبہ بھی کیا۔