ٹھٹہ سے اغوا ہونے والی ہندو لڑکی کا عدالت میں مذہب تبدیل کرنے کا بیان

فوٹو: فیس بک

ضلع ٹھٹہ کی تحصیل گاڑھو سے چند دن قبل اغوا ہونے والی میگھواڑ قبیلے کی ہندو لڑکی نے عدالت میں مرضی کے مطابق مذہب تبدیل کرنے کا بیان دے دیا۔

تحصیل گاڑھو کے گوٹھ داندھاری کے میگھواڑ قبیلے سے تعلق رکھنے والے خاندان نے چند دن قبل ملزم شاہد انڑ پر نوجوان لڑکی کو اغوا کرنے کا الزام لگایا تھا۔

لڑکی کے اہل خانہ کے مطابق ملزم نے ساتھیوں کے ہمراہ رات کو ان کے گھر پر چڑھائی کی اور والبائی میگھواڑ کو ہتھیاروں کے زور پر اغوا کرکے لے گئے۔

لڑکی کے والدین نے بیٹی کے اغوا کے خلاف احتجاج بھی کیا لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

بعد ازاں اغوا ہونے والی لڑکی ملزم شاہد انڑ کے ہمراہ ٹھٹہ کی عدالت میں پیش ہوئی، جہاں انہوں نے مرضی کے مطابق مذہب اسلام قبول کرنے کا بیان دیتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے شاہد سے پسند کی شادی کرلی۔

لڑکی نے عدالت میں نکاح نامہ بھی دکھایا اور بتایا کہ انہوں نے اپنا نام سلمیٰ میگھواڑ رکھا ہے اور وہ شادی کے بعد اپنے شوہر کے ہمراہ رہنا چاہتی ہیں، وہ والدین کے ساتھ نہیں جانا چاہتیں۔

انہوں نے اپنے اغوا کے الزامات بھی مسترد کیے اور کہا کہ انہیں شوہر کے ساتھ آزاد زندگی گزارنے دی جائے۔

لڑکی کے بیان کے وقت ان کے والدین بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے اور بیٹی کے بیان کے بعد وہ بے بسی کے عالم میں گھر چلے گئے۔

مذکورہ واقعے سے قبل بھی سندھ بھر میں ایسے متعدد واقعات سامنے آ چکے ہیں، جن میں پہلے اقلیتی لڑکیوں کو اغوا کیا جاتا ہے اور بعد ازاں انہیں یا تو عدالت میں پیش کردیا جاتا ہے یا پھر کسی مذہبی عالم کے پاس جاکر لڑکی کے مسلمان ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

ایسے کیسز میں عام طور پر ہندو برادری کی لڑکیاں اغوا کی جاتی ہیں اور ایسی لڑکیوں میں زیادہ تر کا تعلق نچلی ذات کے ہندوؤں سے ہوتا ہے۔

حالیہ واقعے پر بھی سندھ بھر کے لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے پولیس اور انتظامیہ کو ایکشن لے کر لڑکی کو بازیاب کروانے کا مطالبہ کیا۔