مقتول شہناز انصاری کے قتل کا فیصلہ سنادیا گیا، بیٹی کی انصاف کی دہائیاں

فروری 2020 میں قتل کی گئی نوشہروفیروز کی رکن سندھ اسمبلی شہناز انصاری کے قتل کا فیصلہ درجنوں سماعتوں کے بعد تین نومبر کو سنادیا گیا۔

نوشہروفیروز کی ماڈل کورٹ نے خاتون رکن اسمبلی کے قتل میں نامزد مرکزی ملزم وقار کھوکھر کو عمر قید جب کہ دیگر تین ملزمان اختر، سلمان اور صدیق کو باعزت بری کردیا۔

عدالت کی جانب سے قاتل کو سزائے موت دیے جانے کے بجائے عمر قید کی سزا سنانے اور دیگر ملزمان کو باعزت بری کیے جانے کے بعد مقتول رکن اسمبلی کی بیٹی ڈاکٹر فاطمہ شہناز انصاری کی عدالت کے باہر رونے، دھاڑیں مارنے اور انصاف کی دہائیاں دینے کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔

ان کی وائرل ہونے والی ویڈیو میں انہیں عدالتی فیصلے پر سخت جذباتی رد عمل دیتے ہوئے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے، ان کے ساتھ آئی ہوئی دوسری خاتون کو بھی عدالتی فیصلے پر روتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

مقتول رکن اسمبلی شہناز انصاری کی صاحبزادی کی رونے اور دہائیاں دینے کی ویڈیو اور تصاویر وائرل ہوگئیں اور لوگوں نے بھی عدالتی فیصلے کو مقتولہ کے ساتھ ناانصافی قرار دیا۔

شہناز انصاری کو فروری 2020 میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا، انہیں اپنی بہن کے سسرالیوں کے رشتے داروں نے جائداد کے تنازع پر قتل کیا تھا۔

شہناز انصاری نے قتل ہونے سے قبل مقامی پولیس کو خط لکھ کر بتایا تھا کہ ان کی بہن کے شوہر زاھد کھوکھر کے انتقال کے بعد ان کے بھائی اور دیگر لوگ ان کی بہن کو ملکیت کا حصہ نہیں دینا چاہتے اور ان کے حصے میں آنے والی ملکیت پر قبضہ کر رہے ہیں جب کہ ملزمان ان کی بہن سمیت انہیں بھی قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

شہناز انصاری کی جانب سے نوشہروفیروز کی پولیس اور ضلعی انتطامیہ کو خط لکھنے کے باوجود انہیں سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی تھی اور رکن سندھ اسمبلی کو دن ہاڑے فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔

شہناز انصاری کے قتل کا مقدمہ ان کی بیٹی فاطمہ زھرا انصاری نے دائر کروایا تھا اور پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے دو ماہ بعد مارچ کے اختتام تک ملزمان کو گرفتار کرلیاتھا اور ان کا کیس عدالت میں دو سال سے زائد عرصے تک چلا۔

اسی دوران ملزمان شہناز انصاری کی بیٹی کے پاس صلح اور معافی کے لیے قافلہ بھی لے کر آئے تھے مگر فاطمہ شہناز نے انہیں معاف کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں عدالت پر یقین ہے اور وہ اپنی والدہ کے قاتلوں کو عدالتوں سے ہی سزا دلا کر رہیں گی۔

مگر بد قسمتی سے تین نومبر کو مقامی عدالت نے ان کی والدہ کے مرکزی ملزم کو عمر قید جب کہ باقی تین ملزمان کو باعزت بری کردیا، جس پر فاطمہ شہناز انصاری نے عدالت کے باہر دھاڑیں ماریں، انصاف کی دہائیاں دیں اور والدہ کے قاتلوں کی آزادی پر احتجاج کیا۔