پی پی پی ایچ آئی کی جانب سے تین ارب روپے کی غیر معیاری اور جعلی لیبل کی ادویات خریدنے کا انکشاف

فوٹو: پی پی ایچ آئی، فیس بک

پرائمری ہیلتھ کیئر انیشیٹو (پی پی ایچ آئی) میں میگا کرپشن کا اسکینڈل سامنے آیا ہے، جس کےتحت انسانی صحت اور زندگیوں کو بچانے والی تنظیم نے تین ارب روپے سے زائد کی رقم کی غیر معیاری اور جعلی لیبل کی ادویات خریدنے کا انکشاف ہوا ہے جب کہ تنظیم کی میڈیکل اسٹورز میں مدہ خارج اور انتہائی کم مدت کی حامل ادویات کے موجود ہونے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔

روزنامہ کاوش میں شیخ اسرار کی شائع رپورٹ کے مطابق پی پی ایچ آئی کی جانب سے متعدد مقامی اور ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیز کی غیر معیاری یعنی ایکسپائری کےقریب والی ادویات سمیت بعض کمپنیوں کی ادویات پر جعلی لیبل کی حامل ادویات کو خریدا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیاکہ پی پی ایچ آئی کی اپنی ایک رپورٹ میں بھی ایسی ادویات کو نہ خریدنے کی تجویز دی گئی تھی مگر اس باوجود تین ارب 11 کروڑ روپے کی خطیر مالیت کی ادویات خریدی گئیں، جن میں 66 لاکھ روپے کے ایسے کیپسولز بھی شامل ہیں، جن پر جعلی لیبل لگا ہوا تھا۔

رپورٹ سے عندیہ ملتا ہےکہ جعلی لیبل کے حامل کیپسولز کے جعلی ہونے کے امکانات ہیں، مذکورہ کیپسولز کو دارالحکومت کراچی کے علاوہ حیدرآباد، کشمور، شکارپور، خیرپور اور عمرکوٹ سمیت صوبے کےدیگر اضلاع میں بھیجا جا چکا ہے۔

اسی طرح رپورٹ میں بتایاگیا کہ پی پی ایچ آئی کے اسٹورز میں لاکھوں روپے مالیت کی مدہ خارج ادویات بھی پڑی ہوئی ہیں جب کہ اسٹورز میں لاکھوں روپے مالیت کی ایسی ادویات بھی موجود ہیں جن کی ایکسپائری جلد ختم ہونے والی ہے۔

جامع رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 32 کروڑ روپے مالیت کی ادویات ایسی ہیں جن کا مدہ جلد ختم ہوجائے گا جب کہ سیپرا اور حکومت سندھ کے قوائد کے مطابق پی پی ایچ آئی کو ایسی ادویات خریدنی ہوتی ہیں جن کا مدہ 90 فیصد بقایا ہو۔

رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ تنظیم کے نیوٹریشن سپورٹ پروگرام میں بھی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں، جس سے 10 کروڑ روپے کی خطیر رقم کو صرف ادویات اور اخراجات میں دکھایا گیا ہے جب کہ مذکورہ رقم نیوٹریشن سپورٹ پر خرچ ہونی تھی۔

اسی طرح رپورٹ میں بتایا گیا کہ پی پی ایچ آئی میں کئی سال سے بھرتی ہونے والے اعلیٰ عہدیداروں سمیت دیگر ملازمین کے تعلیمی اور تجربے کی اسناد کی تصدیق نہیں کروائی گئی، جس سے یہ خدشہ بھی پیدا ہوچکا ہے کہ تنظیم میں درجنوں ملازمین ایسے ہوں گے جن کے پاس بوگس تعلیمی اسناد ہوں گی۔

خیال رہے کہ پی پی ایچ آئی کا قیام 2007 میں عمل میں آیا تھا، یہ تنظیم اگرچہ سرکاری نہیں ہے مگر اسے سندھ حکومت کی نمائندہ تنظیم کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور صوبے کے 22 اضلاع میں پرائمری صحت کی سہولیات فراہم کرتی ہے۔