سندھ حکومت کا ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار

سندھ حکومت نے پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پورے صوبے میں مکمل افراد کو درست انداز میں شمار نہیں کیا گیا۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے مردم شماری کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے حساب سے صوبے کی آبادی ساڑھے 6 کروڑ سے زائد ہونی چاہئیے تھی۔

دارالحکومت کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے دعویٰ کیا کہ سکھر، حیدرآباد، لاڑکانہ اور کراچی سمیت تمام شہروں میں لوگوں کو مکمل شمار نہیں کیا گیا جان بوجھ کر کچھ بلاکس میں ہماری آبادی کو کم دکھایا جا رہا ہے جس کی تمام چیزیں میں نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کو بھیجی ہیں اور ان سے احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مردم شماری جاری رکھنی ہے تو پورے پاکستان میں جاری رکھیں۔

وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ مردم شماری پر تحفظات تھے اور ہیں، ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے ہر ضلع میں ہماری آبادی کو کم بتایا جا رہا ہے، صوبائی دارالحکومت کراچی کی آبادی کو بھی 13لاکھ کم گنا گیا، احسان نہیں برابری چاہیے، ہمارے تمام لوگوں کو شمار کیا جائے، بلاکس کو مکمل گنا نہیں گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حیدر آباد کی آبادی ایک کروڑ 21 لاکھ تک بتائی گئی ہے جبکہ ان کے حساب سے شہر کی آبادی تقریبا ایک کروڑ 50 لاکھ ہے، اسی طرح میرپورخاص کی آبادی 5.14 ملین بتائی گئی ہے جبکہ ان کے حساب سے اس کی آبادی 6.1 ملین ہے۔

وزیر اعلیٰ کے مطابق دارالحکومت کراچی کی آبادی ایک کروڑ 90 لاکھ بتائی گئی جبکہ سندھ حکومت کے حساب سے اس کی آبادی 2 کروڑ 30 لاکھ ہونی چاہئیے۔

انہوں نے بتایا کہ لاڑکانہ کی گنتی 8.167 ملین بتائی گئی ہے جب کہ ان کے حساب سے اس کی آبادی 8.73 ملین ہونی چاہئیے، اسی طرح سکھر کی آبادی 6.72 ملین بتائی گئی ہے لیکن سندھ حکومت کے حساب سے اس کی آبادی 7.4 ملین ہے، اسی طرح شہید بے نظیر آباد ڈویژن کی آبادی 6.28 ملین دکھائی گئی ہے جبکہ ان کے حساب سے وہاں کی آبادی 7.1 ملین ہے۔

وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے واضح کیا کہ پورے سندھ کی آبادی کو درست انداز میں نہیں گنا گیا اور ان کے اندازوں کے مطابق سندھ کی آبادی ساڑھے 6 کروڑ تک ہونی چاہئیے جو کہ کم بتائی گئی ہے۔

انہوں نے یہ شکوہ بھی کیا کہ 2017 میں بھی سندھ کی مردم شماری غلط ہوئی تھی جس میں سندھ کو کم گنا گیا تھا، ہم نے اس وقت بھی اعتراض کیا تھا اور اب بھی ہمیں درست نہیں گنا جا رہا۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ مذکورہ معاملہ قومی مفادات کونسل میں بھی اٹھائیں گے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے سوال کیا کہ اگر مردم شماری کا مقصد شرح میں ضافہ کی بنیاد پر کرانا تھا تو اتنا خوفناک عمل کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے تحت مردم شماری ہر 10 سال بعد کرائی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آخری مردم شماری 2017 میں ہوئی تھی لیکن وہ توقعات کے مطابق نہیں تھی اس لیے انھوں نے سی سی آئی میں آواز اٹھانے پر وفاقی حکومت نے 2023 میں دوبارہ مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ جن شمار کنندگان نے بلاکس کا ڈیٹا اندراج کیا انہیں سنٹرل ڈیٹا سینٹرز قبول نہیں کر رہے تھے۔2017 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کا اشتراک کرتے ہوئے مراد شاہ نے کہا کہ پنجاب کی آبادی 109989655 ہے جس میں 17107953 درج شدہ گھرانوں (HH) کی اوسط تعداد 6.43 ہے۔ 2023 میں پنجاب کی متوقع آبادی 123375402 شمار کی گئی ہے جس میں ایک گھرانے کی اوسط 6.24 ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2017 کی مردم شماری میں سندھ کی آبادی 47854510 تھی جس میں 8626204 گھرانے درج تھے، ایک گھرانے کا اوسط شرح 5.55 فی گھرانہ تھا۔ 2023 میں صوبے کی متوقع آبادی 57665774 ہے جس میں 10256995 گھرانے درج ہیں۔ ایک گھرانے کی اوسط شرح 5.62 ہے۔ 2017 میں خیبرپختونخوا میں گھریلو تناسب 7.13 ریکارڈ کیا گیا تھا اور اب – یعنی 2023 میں اس کا تخمینہ 6.92 لگایا گیا ہے۔ 2017 میں بلوچستان میں ایک گھرانے کی اوسط 6.97 تھی اور اب – 2023 میں یہ 6.26 پر متوقع ہے

سندھ کی آبادی میں 3.17 فیصد سالانہ اضافہ، پنجاب میں کمی اور بلوچستان میں اضافہ ہوا۔ 2017 میں بلوچستان 6.7 اورسندھ میں 5.55 تناسب تھا۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ کی آبادی 64.4ملین ہے جبکہ اسے 57.66ملین دکھا یا جارہا ہے جس میں 68لاکھ کی کمی نمایاں ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ مردم شماری میں کراچی کے تمام بلاکس کو درست نہیں گنا گیا اورکچھ بلاکس میں ہماری آبادی کو کم دکھایا جا رہا ہے جوکہ یہ عمل قابل قبول نہیں اور تمام تفصیلات وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کو بھیجی گئی ہیں کہ ہمیں درست نہیں گنا جا رہا۔