نورین فاطمہ کے قتل کا مقدمہ درج، بھائی گرفتار

ضلع جامشورو کے تحصیل سیہون کے شہر بھان سید آباد کے قریب بھائیوں اور والدین کی جانب سے پسند کی شادی کرنے پر مبینہ طور پر قتل کی گئی پرائمری اسکول ٹیچر نورین فاطمہ کے قتل کا مقدمہ درج کرنے کے بعد مقتولہ کے بھائی کو گرفتار کرلیا گیا۔

نورین فاطمہ کے قتل کا مقدمہ ان کے شوہر منصور سومرو کی فریاد پر بھان سید آباد تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 سمیت دیگر دفعات کے تحت مقتولہ کے بھائی اور والد سمیت دیگر دو نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا گیا، جس کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے مقتولہ کے بھائی کو بھی گرفتار کرلیا۔

 

سیہون کے قریب نوجوان لڑکی نورین فاطمہ بھائیوں کے ہاتھوں قتل

مقدمہ درج ہونے کے بعد پولیس نے ابتدائی تفتیش کرتے ہوئے اس تاثر کو مسترد کیا کہ نورین فاطمہ نے خودکشی کی ہے۔

ایس ایس پی سیہون بیدار بخت نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ ابتدائی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ نورین فاطمہ نے خودکشی نہیں کی بلکہ اسے قتل کیا گیا۔

بیدار بخت کے مطابق یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ نورین فاطمہ کے قتل کے بعد بھی اس کے موبائل سے اس کے گھر والے نورین کے شوہر سے نورین بن کر بات کرتے رہے۔

پولیس نےتصدیق کی کہ منصور سومرو نے انہیں اپنے موبائل سمیت نورین فاطمہ سے نکاح کرنے کے دستاویزات بھی پولیس کو فراہم کردیے۔

دوسری جانب نورین فاطمہ کی والدہ نے بھی کہا ہے کہ ان کی بیٹی خودکشی نہیں کر سکتی، البتہ وہ بھائیوں اور شوہر کے دبائو میں آکر کوئی نہ کوئی سنگین قدم اٹھا سکتی ہیں۔

علاوہ ازیں نورین فاطمہ کے بھائی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ نورین فاطمہ کے شوہر منصور سومرو نے طلاق کے عوض ان سے 40 لاکھ روپے وصول کر چکے ہیں، جن کے شواہد بھی ان کے پاس موجود ہیں۔

ادھر منصور سومرو نے دعویٰ کیا ہے کہ نورین فاطمہ پر بھائیوں اور والد کا خلع لینے کا دبائو تھا لیکن وہ خود خلع نہیں لینا چاہتی تھیں۔

نورین فاطمہ کے بہیمانہ قتل پر سندھ بھر کے انسانی حقوق کے کارکنان احتجاج پذیر ہیں اور پولیس سے معاملے کو حل کرکے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔