بلال کاکا قتل کیس: پولیس نے گرفتار ملزم کو بے گناہ قرار دے دیا

بلال کاکا کو 12 جولائی کو قتل کیا گیا: فوٹو- فیس بک
بلال کاکا کے قتل کیس میں نامزد مرکزی ملزم شاہ سوار کو سینٹرل جیل منتقل کیا جا چکا ہے—فوٹو: فیس بک

گزشتہ ماہ 12 جولائی کو حیدرآباد کے علاقے قاسم آباد کے سپر سلاطین ہوٹل پر کھانے کے بل کے تنازع پر ہوٹل مالکان کی جانب سے قتل کیے گئے نوجوان بلال کاکا کے قتل کے الزام میں گرفتار کیے گئے ایک ملزم کو سندھ پولیس نے بے گناہ قرار دے دیا۔

سندھ پولیس نے بلال کاکا کے قتل کیس کا مقدمہ ان کے ورثا کی فریاد پر 9 ملزمان کے خلاف دائر کیا تھا، جس میں سے تاحال پولیس نے 4 ملزمان کو گرفتار کیا تھا مگر اس میں سے بھی ایک ملزم کو پولیس نے بے گناہ قرار دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ گرفتار ملزم جائے وقوع پر موجود بھی نہیں تھا اور انہیں شک کی بنیاد پر قتل کیا گیا، وہ ملزمان کا رشتے دار بھی نہیں۔

پولیس نے گرفتار تین ملزمان کا ریمانڈ مکمل ہونے پر انہیں 30 جولائی کو عدالت پیش کیا تو پولیس نے عدالت کو بتایا کہ گرفتار ملزم افضل پٹھان دراصل دوسرا شخص ہے، اس کا اصل نام افضل نہیں بلکہ امدا علی ہے اور پولیس نے انہیں غلطی سے شک کی بنیاد پر گرفتار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: حیدرآباد میں بلال کاکا کے قتل کے بعد سندھ میں کشیدگی

تفتیشی افسر نے دعویٰ کیا کہ امداد علی کو پرانے تفتیشی افسر نے اس وقت غلطی سے گرفتار کیا، انہیں افضل پٹھان سمجھ کر گرفتار کیا گیا مگر وہ دوسرا شخص ہے اور اس کا کیس سے کوئی لینا دینا نہیں، وہ ملزمان کا رشتے دار بھی نہیں اور نہ ہی وہ جائے وقوع پر موجود تھا، انہیں رہا کیا جائے، ان کی شناخت دوسرے شخص کے طور پر ہوئی ہے اور گواہان نے بھی تصدیق کی ہے کہ وہ بے گناہ ہے۔

عدالت نے امداد علی کو افضل سمجھ کر گرفتار کرنے والے پرانے تفتیشی افسر کو بھی آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا جب کہ باقی دو ملزمان محمد گل اور احمد یار کو مزید ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔ عدالت نے کیس کے مرکزی ملزم شاہ سوار کو پہلے ہی گزشتہ سماعت پر سینٹرل جیل منتقل کردیا تھا۔

بلال کاکا کو 12 جولائی کو کھانے کے بل کے تنازع پر تشدد کرکے قتل کیا گیا تھا، ان کے قتل میں ملوث ملزمان سے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ افغان شہری ہیں۔

بلال کاکا کے قتل کے بعد سندھ کے مختلف شہروں میں عوام نے افغان شہریوں کے خلاف پرامن مظاہرے کرتے ہوئے اس وقت تمام شہروں سے افغان نسل کے لوگوں کے کاروبار بند کرادیے تھے اور انہیں سندھ چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بلال کاکا قتل کیس کے مرکزی ملزم کو سینٹرل جیل منتقل کرنے کا حکم

سندھ بھر میں افغان شہری زیادہ تر چائے اور کھانے کے ہوٹل چلاتے ہیں اور زیادہ تر افغان نسل کے لوگ غیر قانونی طور پر سندھ میں مقیم ہیں، جن سے متعلق پولیس، حکومتیں اور عدالتیں بھی شبہات کا اظہار کر چکی ہیں اور انہیں صوبے بھر میں ہونے والے جرائم میں ملوث قرار دے چکی ہیں۔

سندھ کے لوگوں کی جانب سے افغانیوں کے کاروبار بند کرائے جانے کے بعد 17 اور 18 جولائی کو افغان نسل کے لوگوں نے دارالحکومت کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ پر پرتشدد مظاہرے کرکے آنے جانے والی گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا تھا۔

افغان نسل کے لوگوں کی جانب سے پرتشدد مظاہروں کے بعد صوبے میں سندھی پشتون فسادات پھیلنے کا امکان پیدا ہوگیا تھا مگر پولیس، حکومت اور سندھ کی قومپرست جماعتوں نے اس ضمن میں کردار ادا کرکے لوگوں کے غم و غصے کو کم کرکے صوبے میں امن و امان کو یقینی بنایا۔