حیدرآباد میں بلال کاکا کے قتل کے بعد سندھ میں کشیدگی

بلال کاکا کو 12 جولائی کو قتل کیا گیا: فوٹو- فیس بک
بلال کاکا کو 12 جولائی کی شب رات دیر گئے جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا، پولیس- فوٹو: فس بک

صوبہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں 12 اور 13 جولائی کی درمیانی شب رات دیر گئے کھانا کھانے کے بعد مبینہ جھگڑے میں قتل کیے گئے نوجوان بلال کاکا کی ہلاکت کے بعد سندھ بھر میں حالات کشیدہ ہوگئے۔

حیدرآباد پولیس کے مطابق بلال کاکا کو قاسم آباد کے علاقے میں موجود سلاطین ہوٹل پر جھگڑے کے دوران تشدد کرکے ہلاک کیا گیا جب کہ ان کے چند دوست زخمی بھی ہوئے۔

ان سے جھگڑا کرنے والے ملزمان اور سلاطین ہوٹل کے مالکان کا اصل تعلق افغانستان سے بتایا جا رہا ہے اور غیر ملکی افراد کے ہاتھوں مقامی شخص کے بیہمانہ قتل کے بعد لوگوں میں غصہ پایا گیا۔

بلال کاکا کے قتل کے بعد 13 جولائی کو ٹوئٹر پر ان کے لیے جسٹس فار بلال کاکا کا ٹرینڈ چلایا گیا، جس کے بعد صوبے بھر میں نوجوانوں اور قوم پرست تنظیموں کے ارکان نے افغانی شناخت رکھنے والے باشندوں کے کاروبار بند کرائے گئے۔

سندھ بھر میں افغان باشندوں نے زیادہ تر چائے اور کھانے کے ہوٹل کھول رکھے ہیں، جنہیں بلال کاکا کے قتل کے بعد پر امن طریقے سے بند کرایا گیا اور صوبے بھر میں صرف افغان باشندوں کے ہی کاروبار بند کرائے گئے۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا (کے پی) اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پشتون یا پختون افراد کے کاروبار کو نہیں چھیڑا گیا۔

بلال کاکا کے قتل کے الزام میں ہوٹل مالک کو بھی گرفتار کرلیا گیا تھا: فوٹو: پولیس/ فیس بک

 

 

تاہم صوبے بھرمیں حالات 14 اور 15 جولائی کو اس وقت کشیدہ ہوئے جب کہ افغان نسل کے افراد نے دارالحکومت کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں احتجاج کرکے روڈ بلاک کردیا اور ملک بھر سے آنے اور جانے والی ہزاروں گاڑیاں گھنٹوں تک پھنسی رہی۔

افغان نسل کے افراد کی جانب سے کیے گئے مظاہرے دیکھتے ہی دیکھتے پرتشدد بن گئے اور ان کی جانب سے سندھی نسل کے افراد کو شناخت کے بعد مبینہ طور پر تضحیک کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

سوشل میڈیا پر سہراب گوٹھ میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کی کئی ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہوئیں، جن میں ایک مخصوص کمیونٹی کے افراد کو بھیڑ کی جانب سے تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔

بلال کاکا کے قتل کے بعد سندھی اور پشتونوں کے درمیان سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف بھی لفظی جنگ دیکھی گئی، تاہم اس دوران سندھ کی قومپرست جماعتوں کے سربراہان نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کو پر امن رہنے اور پشتونوں کے ساتھ تنازع نہ کرنے کی بھی اپیل کی۔

قومپرست جماعتوں کے ذمہ دارانہ مظاہرے کے بعد صوبے بھر میں 17 جولائی کے بعد حالات معمول پر آنے لگے، تاہم سندھی افراد نے افغانیوں کے کاروبار کے بائیکاٹ کرنے اور انہیں صوبے سے بے دخل کرنے کی پر امن مہم جاری رکھی۔

 

قتل کے واقعے کے بعد سپر سلاطین ہوٹل کو بند کروادیا گیا تھا: فوٹو- فیس بک

 

سندھ کے مقامی افراد کے مطابق افغانی نسل کے باشندے صوبے بھر میں جہاں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں، وہیں وہ جرائم پیشہ وارداتوں میں بھی ملوث ہیں جب کہ وہ منظم طریقے سے سیاسی پشت پناہی سے صوبے بھر میں اپنا پھیلائو بڑھا کر مقامی لوگوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔

مقامی افراد کے مطابق اب جب کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہو چکا ہے اور وہاں پر مقامی لوگوں کی طالبان حکومت قائم ہو چکی ہے تو صوبہ سندھ میں غیر قانونی طور پر رہنے والے افغان مہاجرین کو واپس اپنے ملک بھیجا جائے۔

مقامی افراد کا مطالبہ ہے کہ جب تک افغان مہاجرین کو واپس اپنے ملک نہیں بھیجا جاتا تب تک انہیں حکومت عالمی برادری اور تنطیموں کے تعاون سے مخصوص کیمپس تک محدود رکھ کر ان کی رجسٹریشن کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی نقل و حرکت پر بھی نظر رکھے۔

 

افغان نسل کے افراد نے دارالحکومت کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں پرتشدد احتجاج کرکے سندھی نسل کے افراد کو نشانہ بھی بنایا، جس کے بعد وہاں کچھ دن تک پولیس نفری تعینات کی گئی: اسکرین شاٹ/ یوٹیوب/ جیو نیوز