کیٹی بندر کی تاریخی، کاروباری اور سیاحتی اہمیت

کیٹی بندر سندھ کے ضلع ٹھٹہ کی حدود میں واقع ہے اور یہ اہم ترین بندرگاہ گھارو سے 120 کلومیٹر جب کہ صوبائی دارالحکومت کراچی کے جنوب مشرق میں 200 کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے دنیا کا یہ ساتواں بڑا ڈیلٹا تیزی سے سمندر برد ہو رہا ہے۔ کیٹی بندر میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی عالمی غیرسرکاری تنظیموں کا کہنا ہےکہ سمندر روزانہ 80 ایکڑ زرعی زمین اپنے زیراثر کر رہا ہے اور یہاں نقل مکانی برسوں سے جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں کبھی اپنی ذرخیزی کیلئے مشہور اور درآمد و برآمد کا مرکز رہنے والا یہ شہر آج ویرانی کی جیتی جاگتی تصویر بن گیا ہے، 19 ویں صدی میں یہاں کی آبادی ہزاروں میں ہوا کرتی تھی تاہم مسلسل نقل مکانی کی وجہ سے آج یہاں محض چند گاؤں ہی باقی رہ گئے ہیں۔

سمندر کے مسلسل آگے بڑھنے کی وجہ سے کیٹی بندر میں قابل کاشت زمین اور میٹھے پانی کی قلت ہے ، کہیں ‘پان کے پتوں کے فارم ، کہیں پولٹری فارم نظر آتے ہیں، میٹھے پانی کی شدید کمی اور سمندر کے آگے بڑھنے کی وجہ سے مقامی جنگلی حیات کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔

زراعت نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کی کمائی کا بڑا ذریعہ ماہی گیری ہے۔ لوگ کئی کئی روز تک بحیرہ عرب میں مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں اور واپس آکر مچھلیاں بازار میں فروخت کرتے ہیں جہاں سے خریدار مچھلیاں کراچی اور دیگر شہروں کو لے جاتے ہیں۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ فار نیچر (WWF) کے 2004 اعداد و شمار کے مطابق کیٹی بندر میں تقریباً 42 دیہات موجود تھے جبکہ اس کا رقبہ تقریباً 60 ہزار 969 ہیکٹر تھا تاہم ان میں سے 28 دیہات اور 46 ہزار 137 ہیکٹر کا رقبہ سمندر برد ہوگیا۔

ایک اندازے کے مطابق اب کیٹی بندر تحصیل میں تقریباً 19 دیہات اور 29 کے قریب گاؤں ہیں جبکہ اس کی مجموعی آبادی 12 ہزار کے قریب ہے۔

ماضی میں کیٹی بندر کو انتہائی اہمیت حاصل تھی اور یہ پورٹ سٹی تھا جہاں 19 ویں صدی کے اواخر میں اناج و دیگر اشیا کراچی ، گجرات و دیگر علاقوں میں بھیجا جاتا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ کیٹی بندر کی بندرگاہ محمد بن قاسم کی فوج کے عراق سے پہنچے والے مقام دیبل کی بندرگاہ کی باقیات پر تعمیر کی گئی تھی۔

کیٹی بندر کے مقامی بزرگ افراد بتاتے ہیں کہ 75 برس کے دوران کیٹی بندر قصبے نے تین بار اپنی آبادی کو دوسری جگہ منتقل کیا ہے، جیسے جیسے سمندر اگے بڑھتا ہے آبادی کو جگہ بدلنی پڑتی ہے۔ میٹھے پانی کیلئے یہاں کے لوگ مکمل طور پر دریائے سندھ پر انحصار کرتے ہیں۔

ماضی کا یہ عظیم پورٹ سٹی دریائے سندھ پر بننے والے ڈیمز کی وجہ سے سمندری کٹائی کا شکار ہے اور اپنی وہ اہمیت کھو چکا ہے جو ماضی میں اسے حاصل تھی۔

کیٹی بندر ملکی معیشت کو دوام بخشنے کی صلاحیت رکھتا ہے، تقریباً 150 برس قبل یہ بندرگاہ کے طور پر کام کرتا تھا اور اس میں پاکستان کی تیسری بڑی بندرگاہ بننے کی صلاحیت موجود ہے۔

 ایک دور میں یہ علاقہ کافی خوبصورت تھا، یہاں بڑے پیمانے پر زراعت ہوتی تھی جبکہ آبی وسائل کی بہتات کی وجہ سے

ڈان میں شائع ایک مضمون کے مطابق انگریز دور کے ایک افسر نے اس وقت کے کمشنر آف سندھ کو اس علاقے کی ‘ریسیٹلمنٹ سروے رپورٹ 1905 میں پیش کی تھی، جس میں تھا کہ، "1848ء سے یہ شہر درآمد و برآمد کا مرکز رہا ہے، یہ اناج کی مشہور منڈی ہے۔ یہاں سے کراچی، کچھ، کاٹھیاواڑ اور گجرات تک اناج جاتا ہے۔ کیٹی بندر کا ‘زنجبار’ سے سیدھا رابطہ ہے۔ 03-1902 میں یہاں سے 92,705 من اناج، 2230 من لکڑی اور دوسرا سامان باہر بھیجا گیا۔”

1908-09 میں بندر پر 382 جہاز 8020 ٹن سامان لے کر داخل ہوئے، جبکہ 260 جہاز 7482 ٹن سامان لے کر دوسرے ملکوں کو روانہ ہوئے۔ 1923 میں یہاں سے 4,23,432 روپیوں کا مال درآمد جبکہ 2,31,313 روپیوں کا مال برآمد کیا گیا۔ اور 1946ء میں فقط 13,415 روپیوں کا مال منگوایا گیا۔ (1)۔ 1948ء میں دریائی بہاؤ کی تبدیلی کی وجہ سے کیٹی بندر کے آسمان سے خوشحالی کا سورج غروب ہونے لگا اور کمال و زوال کی کہانی کی ابتدا ہوگئی۔

دور دور سے کشتیاں اس جانب سفر کیا کرتی تھیں۔

ماضی میں کیٹی بندر کو صحیح معنوں میں بندرگاہ بنانے کیلئے پروجیکٹس کا اعلان تو کیا گیا تاہم اس پر اب تک عمل نہیں ہوسکا ہے۔ 2007 میں اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے کہا تھا کہ کیٹی بندر کو پاکستان کی تیسری بندرگاہ کے طور پر ڈویلپ کیا جاسکتا ہے تاہم اب تک اسے عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا ہے۔