سیما حیدر جکھرانی معاملہ: ڈاکوؤں کا کشمور میں مندر پر حملہ

سیما حیدر جکھرانی کی جانب سے سندھ چھوڑ کر بھارت جانے اور وہاں ایک ہندو نوجوان سے مبینہ شادی کرنے کے معاملے پر ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے شمالی ضلع کشمور میں راکٹ لانچروں سے مندر پر حملہ کردیا۔

ڈاکوؤں نے تین دن قبل ہندوؤں کے مندروں پر حملے کی دھمکی دی تھی۔ کشمور اور کندھ کوٹ کے کچے میں رہنے والے ڈاکوؤں نے سیما حیدر رند جکھرانی کی جانب سے بھارت جانے پر ہندوؤں پر غصہ اتارا اور ان پر حملوں کی دھمکیاں دی تھیں۔

دھمکیوں کے بعد 16 جولائی کو ڈاکوؤں کے ایک گروہ کی جانب سے کشمور میں مندر پر حملے کا واقعہ پیش آیا۔

اس حوالے سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق کشمور کے غوثپور تھانے کی حد میں اتوار کو علی الصبح مندر پر مبینہ طور پر ’راکٹ لانچروں‘ سے حملہ کیا۔ حملہ آوروں نے غوث پور تھانے کی حدود میں عبادت گاہ اور اس سے ملحقہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے گھروں پر حملہ کیا۔

مقامی افراد کے مطابق ڈاکوؤں نے اندھا دھند فائرنگ کی، جس کے بعد کشمور کندھ کوٹ کے ایس ایس پی عرفان سموں کی قیادت میں پولیس یونٹ جائے وقوع پر پہنچ گئی۔

ایک پولیس اہلکار نے بتایا ڈاکوؤں نے عبادت گاہ پر ’راکٹ لانچر‘ فائر کیے جو حملے کے دوران بند تھا، یہ مندر باگڑی برادری کی طرف سے کی جانے والی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے ہر سال کھلتا ہے۔

سیما حیدر کے بھارت جانے پر ڈاکوؤں کی سندھ میں ہندو برادری پر حملوں کی دھمکیاں

دوسری جانب انگریزی اخبار ڈان نے پولیس کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پولیس کا کہنا ہے کہ نامعلوم مسلح افراد کا نشانہ مندر نہیں بلکہ زمیندار کا گھر تھا، جبکہ سوشل میڈیا ان دعووں سے گونج رہا ہے کہ مجرموں نے مندر پر حملہ کیا اور اسے بری طرح نقصان پہنچایا۔

لاڑکانہ رینج کے ڈی آئی جی مظہر نواز شیخ اور کشمور کے ایس ایس پی عرفان علی سموں نے بتایا کہ مسلح افراد نے زمیندار کے گھر ’میر نادر ہاؤس‘ پر حملہ کیا کیونکہ اس نے گزشتہ 6 ماہ سے انہیں بھتے کی رقم ادا نہیں کی تھی۔

پولیس کے مطابق میر نادر ہاؤس سے متصل ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جسے ہندو عبادت گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

ایک عہدیدار نے بتایا کہ یہ نادر ہاؤس پر حملہ تھا، مندر پر نہیں لیکن سوشل میڈیا پر مندر پر حملے کی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں، یہ سراسر بے بنیاد ہے، یہ معاملہ بھتے کی رقم کی عدم ادائیگی سے متعلق ہے اور اس کا کسی کمیونٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

تاہم جیکب آباد جنرل ہندو پنچایت کے صدر لال چند سیتلانی اور دیگر عہدیداروں نے رادھا سوامی دربار مندر پر حملے کی مذمت کی، انہوں نے امید ظاہر کی کہ سندھ میں ہم آہنگی برقرار رہے گی اور کوئی بھی امن کو خراب نہیں کر سکے گا۔

دریں اثنا انسانی حقوق کمیشن نے کشمور اور گھوٹکی میں 30 ہندوؤں کو اغوا کرنے کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا۔

گزشتہ روز انسانی حقوق کمیشن نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’انسانی حقوق کمیشن کو کشمور اور گھوٹکی میں بگڑتے امن و امان کی خبروں پر تشویش ہے جہاں خواتین اور بچوں سمیت ہندو برادری کے تقریباً 30 افراد کو منظم جرائم پیشہ گروہوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔

ٹوئٹ میں مزید کہا گیا کہ ہمیں پریشان کن اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ان گروہوں نے جدید ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے ہندو کمیونٹی کی عبادت گاہوں پر حملہ کرنے کی دھمکی دی ہے، محکمہ داخلہ سندھ کو فوری طور پر اس معاملے کی تحقیقات کرنی چاہیے اور ان علاقوں میں تمام شہریوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔