گھوٹکی کا جیجل اماں اسکول جو دیہات سے سائنس دان پیدا کر رہا ہے

قبائلی تصادم اور ڈاکو راج کی وجہ سے بدنام شمالی سندھ کے ضلع گھوٹکی میں اماں جیجل پبلک اسکول نامی تعلیمی ادارہ وہ کام کر رہا ہے جو آج تک وہاں کسی تعلیمی ادارے نے نہیں کیا۔

شہر سے دور گاؤں میں بنائے گئے جیجل اماں پبلک اسکول میں اگرچہ مکمل تعلیم مفت نہیں، تاہم وہاں انتہائی کم فیس پر ایسی تعلیم و تربیت فراہم کی جا رہی ہے جو سندھ کے بڑے شہروں کے اسکولوں میں بھی نہیں ملتی۔

جیجل اماں پبلک اسکول میں دور دراز شہروں یا علاقوں کے طلبہ کے لیے ہاسٹل بھی موجود ہے، جس میں اس وقت 60 سے زائد طلبہ و طالبات موجود ہیں۔

ہاسٹل میں رہائش پذیر طالب علموں کو اسکول انتطامیہ کی جانب سے مفت یونیفارم، کھانا، کتابیں اور دیگر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں جب کہ ایسے طلبہ کو مخیر حضرات سے اسکالرشپ بھی دلوائی جاتی ہے

سندھ میں جہاں دارالحکومت کراچی، حیدرآباد، نواب شاہ، سکھر، میرپورخاص اور لاڑکانہ جیسے شہروں میں کروڑوں روپے کی سالانہ بجٹ سے چلنے والے تعلیمی اداروں میں بھی سائنس کی تعلیم کو اہمیت نہیں دی جاتی وہاں گھوٹکی شہر کے چھوٹے قصبے بھٹائی آباد میں موجود جیجل اماں پبلک اسکول میں جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائنس کی تعلیم دی جاتی ہے۔

کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر کی گئی شاندار عمارت کسی سرکاری اور غیر ملکی فلاحی ادارے کے تعاون سے بنائی گئی عمارت سے بھی خوبصورت دکھائی دیتی ہے اور وہاں ہر وہ سہولت دستیاب ہے جو کراچی جیسے بڑے شہر کے اسکولوں میں بھی نہیں۔

جیجل اماں اسکول میں پرائمری سے لے کر دسویں جماعت تک لڑکوں اور لڑکیوں کو تعلیم دی جاتی ہے، وہاں تعلیم حاصل کرنے والے زیادہ تر بچے انتہائی غریب افراد کے ہیں اور ان کا تعلق دیہات سے ہے۔

جیجل اماں اسکول نے گھوٹکی سمیت سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کے سرداروں اور مخیر حضرات کے تعاون سے غریب بچیوں اور بچوں کو اسکالر شپ دینے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے جب کہ تعلیمی ادارے میں ووکیشنل اور پروفیشنل آئی ٹی انسٹی ٹیوٹس بھی موجود ہیں۔

جیجل اماں پبلک اسکول کو گھوٹکی جیسے ضلع میں تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور سماجی کارکنان اس بات سے انتہائی خوش ہیں کہ اسکول گاؤں اور دیہاتوں سے سائنس دان، تعلیمی ماہر اور سندھ کو ترقی میں آگے لے جانے والے انسان پیدا کر رہا ہے۔