قرة العین حیدر اور سندھی ادب
تحریر: حسن مجبتیٰ
قرة العین حیدر برصغیر جنوبی ایشیا میں اردو کی وہ واحد مصنفہ اور ناول نگار ہیں جو نسل در نسل اردو ادب کے پڑھنے والوں کو اپنی تحریروں اور تصانیف کے سحر میں جکڑتی رہی ہیں۔ ان کے معرکتہ آلارا ناول "آگ کا دریا” کو ان کے کئی ناقدین نے اردو فکشن کا مہابھارت قرار دیا ہے۔ یہ ناول انہوں نے کراچی میں اپنے قیام کے دوران لکھا۔
یہ سال 1998 کی بات ہے، جب میں اپنے دوست عارف حسن (اب فلم "زندگی تماشا” کے اداکار) سے ملنے ماری پور، پاکستان فضائیہ کالونی کے بنگلوں میں سے ایک بنگلے میں گیا تھا۔ ” یہاں کے بنگلوں کے سبزہ زاروں، ان کے کناروں پر بجری، کمروں کی لمبی دیواروں، کھپریلی چھتوں اور برآمدے کی جافریوں، جھاڑ فانوس وغیرہ والے گھر قرة العین حیدر کے افسانوں میں ہوتے ہیں۔” میں نے عارف حسن کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ان سے کہا تھا۔
” قرة العین حیدر یہیں تو رہتی تھیں، ہمارے اسی پڑوس میں۔” عارف حسن نے مجھے بتایا۔ وہ کہنے لگے ” میرے والد بتایا کرتے ہیں، قرة العین حیدر یہاں اپنے بھائی، جو پاکستان فضائیہ میں پائلٹ تھے، کے ساتھ رہتی تھیں اور میرے والد بھی پاکستان فضائیہ میں تھے۔ وہ یہیں انہی سبزوں کے کناروں پر اپنی سہیلیوں کے ہمراہ سائیکل بھی چلاتی رہتی تھیں۔”
یہ وہ دن تھے جب وہ اپنا معرکتہ الآرا ناول "آگ کا دریا ” لکھ رہی تھیں۔ جس میں ہندوستان کی ہزاروں سالہ تہذیب سمائی ہوئی ہے۔ بدھ مت کے زمانوں سے لیکر تقسیم ہند تک، جنم جنم بدلتے اس کے کردار۔ اس ناول کے پہلے ایڈیشن پر قرة العین کے پیش لفظ کے اختتامیے پر مقام اور تاریخ ماری پور لکھا ہوا ہے۔
کئی برس بعد خود قرة العین حیدر نے اپنے سوانحی ناول ” کار جہاں دراز ہے،” میں، جو تین جلدوں پر مشتمل ہے، کے ایک حصہ ” خیمہ گاہ عمر ماروی” میں ان دنوں کے ماری پور سمیت سندھ کا نقشہ یوں کھینچا ہے:
” رات گئے ماری پور گاؤں سے صحرا کی سمت جاتے ہوئے یقیناً کوئی ساربان چاندنی میں عمر ماروی کا کوئی گیت الاپتا ہوگا۔
اسی سوانحی ناول میں اپنے سندھ کے سفر کے متعلق ایک حصے ” شاہ جو رسالو ” میں سندھ کا ذکر کچھ اس پیرائے میں کرتی ہیں:
” ہم لوگ بذریعہ لینڈ روور حیدرآباد سندھ، کوٹری، سکھر اور لاڑکانہ کیلئے روانہ ہوئے۔ راستے میں کس قدر پرانے مقابر تھے۔ زمین میں اتنوں کی خاک موجود ہے۔ کیسے کیسے لوگ چلے گئے۔ زندگی اتنی مختصر ہے۔ لطیف جاگو اور ڈھونڈو۔‘‘
راستے میں ایک جگہ صحرا پر اچانک بادل گھر آئے جاڑوں کا بوند ساون ۔ شاہ نے سر سارنگ میں کہا ہے، سارنگ (بارش) نے کرار جھیل کو بھردیا اور زمین سرسبز ہو گئی۔ ایک اور جگہ کہا، ہر سمت بجلیاں چمک رہی ہیں، بادل ہر سو پھیل گئے۔ استنبول، چین، سمرقند، روم، قندھار، دلی، گرنار، جیسلمیر، بیکانیر، امرکوٹ، اللہ سندھ پر بھی بارش برسا کر اسے شاداب کردے۔”
سندھ میں بھلا پڑھنے لکھنے والے قرة العین حیدر کی تحریروں سے بے بہرہ کیسے رہ سکتے تھے۔ یہ سندھ سے باہر کی پہلی ادیبہ تھیں جنہوں نے سندھ کو تقسیم ہند کے بہت ہی پہلے دنوں میں جانا تھا اور سندھ کے صوفی مزاج کو بھی اتنی گہرائی سے سمجھا تھا۔ اپنے اسی سوانحی ناول ” کار جہاں دراز ہے” میں وہ اسی سفر سندھ والے حصے میں ایک اور جگہ لکھتی ہیں:
” سندھ پر تصوف کا اتنا گہرا اثر تھا جس کی وجہ سے وہ اتنی آسانی سے انگریزوں کے قبضے میں آگیا۔” لیکن یہ ان کا ناول ” سیتا ہرن” تھا، جس نے سندھ میں پڑھنے اور لکھنے والوں کو بے حد متاثر کیا ہے۔ یہ ذہین و حسین کردار، سیتا میرچندانی، کا ہے۔ وہ ایک نوجوان سندھی عامل ہندو خاتون ہے جو اپنے خاندان کے ساتھ تقسیم کے وقت حیدرآباد سندھ سے بھارت نقل وطن کرجاتی ہے۔ جہاں وہ دلی میں آکر ٹھہرتی ہے۔ ” سیتاہرن” کا مرکزی کردار سندھ کی یہ سیتا میر چندانی پہلے بھارت، بھارت سے امریکہ، پھر پاکستان اور سری لنکا، دہلی، پیرس۔ سیتا میر چندانی، بقول ادیبہ ذکیہ مشہدی کے، ” وہ سیتا ہے جسے راہ میں کئی راون ہی ملے۔ "
میرے خیال میں سیتا کے اس سفر میں محض جسمانی یا سیاسی جلاوطنی نہیں بلکہ دل کی بھی جلاوطنی شامل ہے۔ کہاں ہیرآباد حیدرآباد سندھ کا اہل ثروت عامل خاندان اورکہاں دہلی کے تنگ مکان میں بے سرو سامانی اور غریب الوطنی، جس میں سیتا کی ماں سندھی کشیدہ کاری کا کام کرتی ہیں۔
ولی رام ولبھ سندھی زبان کے نامور ادیب مترجم و مدیر ہیں۔ انہوں نے 1980 کی دہائی میں قرة العین حیدر کے ناول ” سیتا ہرن” کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ولی رام ولبھ نے مجھے بتایا کہ انہوں نے قرة العین حیدر کے ناول ” آخر شب کے ہم سفر” کو بھی سندھی زبان کی پوشاک پہنائی ہے۔ ولی رام ولبھ نے کہا ” وہ دنیا میں نہیں رہیں لیکن ان کا تخلیقی کام امر رہے گا۔ وہ کئی زمانوں تک اپنی شاہکار تخلیقات کے حوالے سے سمجھی اور پہچانی جائیں گی۔”
………………………………………………………………………………
یہ مضمون ابتدائی طور پر وی او اے اردو میں شائع ہوا اور یہاں مختصر کرکے شائع کیا گیا، مکمل مضمون کو اس لنک پر پڑھا جا سکتا ہے