سندھ بھر میں جڑانوالہ والا کے مسیحی متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لیے ریلیاں

سندھ بھر میں پنجاب کے ضلع فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں ہونے والے فسادات اور واقعات میں متاثر ہونے والے مسیحی برادری کے افراد سے اظہار یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالی گئیں اور ریاست و حکومت پاکستان سے اقلیتوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا۔

دارالحکومت کراچی سمیت حیدرآباد، لاڑکانہ، سکھر، نوابشاہ اور میرپورخاص ڈویژن کے مختلف شہروں میں سیاسی و سماجی تنظیموں کی جانب سے مسیحی متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لیے ریلیوں کا اہتمام کیا گیا۔

ریلی میں خواتین، وکلا، مذہبی افراد سمیت سیاسی و اقلیتی رہنماؤں نے شرکت کی، جنہوں نے انتہاپسندی کی حوصلہ شکنی کرنے سمیت اقلیتوں کے تحفظ کے لیے حکومت سے سخت اقدامات اٹھانے کا مطالبہ بھی کیا۔

کراچی ڈویژن میں پریس کلب سمیت دیگر مقامات پر بھی اظہار یکجہتی کی ریلیاں نکالی گئیں جب کہ دیگر شہروں میں بھی سیاسی و سماجی رہنماؤں کی سربراہی میں اظہار یکجہتی کی ریلیاں نکالی گئیں۔

خیال رہے کہ فیصل آباد کے شہر جڑانوالہ میں 16 اگست کو ہجوم نے مسیحی برادری کے کم از کم 86 گھر اور 19 گرجا گھر نذر آتش کر دیے تھے۔

پنجاب پولیس نے ایک ہزار 470 میں سے کم از کم 145 مبینہ شرپسندوں کو گرفتار کیا تھا، جن میں 2 اہم ملزمان بھی شامل ہیں اور 5 مقدمات بھی درج کردیے گئے ہیں۔

جڑانوالہ میں توڑ پھوڑ اور جلاو گھیراؤ پر ملک بھر میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا، علمائے کرام نے واقعے کی شدید مذمت کی اور مجرموں کو سزا دینے پر زور دیا۔

پاک فوج کے سپہ سالار سمیت صدر اور وزیر اعظم نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم ظاہر کیا۔

رپورٹس کے مطابق جڑانوالہ کی عیسٰی نگری میں 16 اگست کے روز مسلمانوں کے محلے کی ایک گلی کی نکڑ سے چند مقدس اوراق ملے تھے، جس کے بعد وہاں لوگوں میں سخت غصہ تھا۔

بی بی سی اردو کے مطابق مقامی نے بتایا کہ وہ اوراق قرآن پاک کے جن کی مبینہ طور پر بے حرمتی کی گئی تھی۔ ان کے مطابق مبینہ بے حرمتی کرنے والے باپ اور بیٹے کی تصویر بھی ایک ورق پر موجود تھی اور ان کا نام پتا بھی لکھا ہوا تھا۔

اس بات کی اطلاع ساتھ جڑے مسیحی برادری کے محلے تک پہنچ چکی تھی۔ وہاں کے رہنے والوں کو معلوم تھا کہ اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے، جس کے بعد بہت سے لوگ اسی وقت سے اپنے بچوں کو اٹھائے، خواتین کو ساتھ لیے سب کچھ گھروں میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔

کچھ وہیں موجود رہے اس امید پر کہ حالات زیادہ نہیں بگڑیں گے۔ آخر ان کے مسلمان ہمسائے انھیں اچھی طرح جانتے ہیں، وہ دہائیوں سے یہاں اکٹھے رہتے آ رہے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ مقامی افراد کے مطابق کچھ ہی دیر میں پاس کی مسجد سے اعلانات ہونے لگے۔ ان اعلانات میں مسلمانوں کو سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنے کا کہا جا رہا تھا۔ اس کے بعد جو لوگ کسی امید پر پیچھے رکے تھے وہ بھی گھر چھوڑ کر بھاگ گئے، جن کا کوئی اور نہیں تھا انھوں نے اپنی خواتین اور بچوں سمیت کھیتوں میں پناہ لی۔

مقامی افراد کے مطابق کچھ ہی دیر میں جتھوں کی شکل میں ہجوم عیسٰی نگری کے کیتھولک سینٹ پال چرچ کے سامنے جمع ہونا شروع ہو گئے اور پھر اسے جلادیا پھر سیلویشن آرمی چرچ، یونائیٹڈ پریس بیٹیرین چرچ اور شہرون والاچرچ میں توڑ پھوڑ کی گئی۔

مجموعی طور پر واقعات میں کم 86 گھر اور 19 گرجا گھر نذر آتش کیا گیا، بعد ازاں پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 (بی) اور 295 (سی) کے تحت ملزمان کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی اور ملزمان کو گرفتار کرنا شروع کیا۔