فاطمہ کو انصاف دو، سندھ کا شعور احتجاج پذیر

رانی پور میں پیر اسد شاہ کی حویلی میں مبینہ تشدد سے ہلاک ہونے والی کمسن بچی فاطمہ فرڑیو کے بہیمانہ قتل کے خلاف کراچی سے کشمور تک سندھ کا شعور احتجاج پذیر ہے اور صوبے کے چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاج کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی فاطمہ کے قتل کے خلاف سخت غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

فاطمہ کے بہیمانہ قتل کے خلاف صوبے کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مظاہرے جاری ہیں اور لوگ حکومت اور ریاست سے ملزمان کو سرعام پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

دارالحکومت کراچی میں بھی مسلسل پریس کلب کے سامنے یومیہ بنیادوں پر مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔

صوبے کے دیگر ڈویژنز کے شہروں میں بھی یومیہ بنیادوں پر مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔

سندھ میٹرز کو مختلف شہروں سے موصول ہونے والی رپورٹس کے مطابق فاطمہ فرڑیو کے بہیمانہ قتل کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں تمام تر شعبہ جات کے افراد نے شرکت کی۔
حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، خیرپور، نوابشاہ، گھوٹکی، شکارپور اور نوشہروفیروز سمیت صوبے کے دیگر شہروں میں بھی مظاہرے کیے گئے۔

https://twitter.com/Shabbir78466762/status/1693218263931748586?t=rDwa9rVvdz31OVjo_2tkqA&s=19

مظاہرین نے فاطمہ کو انصاف دو، حق دو فاطمہ کو اور پیروں کو پھانسی پر لٹکایا جائے سمیت سندھ کو پیروں و مرشدوں سے آزاد کروائیں جیسے نعروں پر مشتمل بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔

علاوہ ازیں سوشل میڈیا پر بھی جسٹس فار فاطمہ کا ٹرینڈ مسلسل چند دن سے ٹرینڈ کر رہا ہے جس کے تحت سوشل میڈیا صارفین فاطمہ کے قاتلوں کو سر عام پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ کرتے دکھائی دیے۔

فاطمہ فرڑیو کو رانی پور کے پیر اسد شاہ کی حویلی میں مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، جہاں وہ سسک سسک کر فوت ہوگئی تھیں اور بعد ازاں بچی کی تڑپ تڑپ کر مرنے کی ویڈیوز آنے پر پولیس نے کارروائی کی تھی۔

بچی کی والدہ کی مدعیت میں 16 اگست کو مقدمہ دائر کرنے کے بعد مرکزی ملزم پیر اسد شاہ سمیت تین ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا تھا جب کہ مرکزی ملزمہ حنا شاہ نے سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت لے لی تھی۔

ورثا نے بچی کو بغیر پوسٹ مارٹم کے دفنادیا تھا لیکن پولیس نے عدالت سے بچی کی قبرکشائی کرنے کی درخواست کی تھی، جس پر عدالت نے اجازت دی تھی اور 19 اگست کو ماہرین اور عدالتی اہلکاروں کی موجودگی میں بچی کی قبرکشائی کرکے پوسٹ مارٹم کے لیے اجزا لیے گئے تھے۔