تاریخی پکہ قلعے پر دوبارہ قبضہ مافیا کی جانب سے تعمیرات کی کوشش
حیدر آباد کے قدیم تاریخی ورثے پکہ قلعہ کی زمین پر ایک بار پھر قبضہ مافیا نے نظریں گاڑ لیں اور مافیا کی جانب سے گلی نمبر ایک میں پلاٹ نمبر 1414 پر 55 فٹ لمبی دیوار توڑ کر 292 مربع گز کا پلازہ تعمیر کرنے کا کام شروع کردیا لیکن شہریوں کی وجہ سے تعمیرات کو رکوادیا گیا۔
پکہ قلعہ کی زمین پر پلازہ کی تعمیر کے لیے بڑے بڑے پتھر اور دیگر مٹیریل لایا گیآ اور وہاں پلاٹ کی تعمیر کا کام شروع کردیا گیا لیکن مقامی شہریوں نے اسسٹنٹ ڈائریکٹرآرکیالاجی اور دیگر افسران کو شکایت کرکے پلاٹ کی تعمیرات کا کام بند کروادیا۔
ذرائع کے مطابق جس پلاٹ پر تعمیر شروع کی گئی تھی اس پلاٹ کو حیدرآباد میونسل کمیٹی (ایچ ایم سی) نے 2009 میں مقصود احمد سومرو کو لیز پر دیا تھا جس نے وہ پلاٹ محمد شوکت نامی شخص کو فروخت کر دیا اور اب شوکت نامی شخص نے گزشتہ ہفتے اس نے پلاٹ پر تعمیرات کا سامان لاکر تعمیرات شروع کردی تھی۔
اسی حوالے سے پکہ قلعہ کے محکمہ آثار قدیمہ کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر سندھو چانڈیو کا کہنا ہے کہ انہوں نے پکہ قلعے کی دیوار کے قریب پلازے کا تعمیراتی کام رکوادیا، انہوں نے بتایا کہ تعمیراتی کام کے آغاز کے بارے میں انہوں نے متعلقہ محکمے کے ڈی جی سمیت دیگر حکام کو آگاہ کیا تھا جس پر انہوں نے ڈویژنل کمشنر کو لیز منسوخ کرنے کی سفارش کردی۔
خیال رہے کہ پکہ قلعہ 260 سال پرانا ہے،تقریباً 36 ایکڑ پر پھیلے قلعے کی دیواروں کی چوڑائی 10 فٹ ہے۔
یہ قلعہ حیدرآباد ریلوے اسٹیشن کے برابر میں موجود ہے۔ جس کا قطر ایک میل اور اونچائی 80 فٹ ہے۔ اس کی چوڑائی 26 ایکڑ بتائی جاتی ہے۔
قلعے کو 1768 میں میاں غلام شاہ کلہوڑو نے تعمیر کروایا تھا، جس کا مقصد لوگوں کے فیصلے کرنا اور صوبے کے تمام امور چلانا تھا۔
جب 1768 میں کلہوڑو خاندان کے حکمراں میاں غلام شاہ نے سندھ کے قدیم قصبے نیرون کوٹ کے مقام پر حیدرآباد شہر کی بنیاد رکھی تو اس نئے شہر کی تعمیر کے دوران ہی یہ تاریخی قلعہ گُنجے نامی پہاڑی پر تعمیر کیا گیا، تاریخی دستاویزات کے مطابق اس قلعے کی تعمیر دیوان گدومل کی زیرِ نگرانی ہوئی جو میاں غلام شاہ کلہوڑو کے ایک قابل درباری تھے۔
کہا جاتا ہے کہ اس کام کے لیے انہیں میاں غلام شاہ کلہوڑو کی جانب سے دو کشتیاں بھر کر سرمایہ دیا گیا تھا اور وہ قلعے کی تعمیر کے دوران یہیں مقیم رہے، اس عظیم الشان قلعے کی تعمیر میں پکی اینٹوں کا استعمال کیا گیا، جس کی وجہ سے اسے سندھی میں پکو قلعو اور اردو میں پکا قلعہ کہا جانے لگا،
یہ قلعہ کبھی باغات، بڑے محلات، درباروں اور دیگر خوبصورت تعمیرات سے بھرا ہوا تھا، الغرض 33 ایکڑ پر قائم یہ قلعہ کسی شاہکار سے کم نہیں تھا۔
’کلہوڑو اور میروں نے قلعے میں رہ کر صوبے پر حکمرانی کی اور میر کرم اللہ ٹالپر، میر فتح ٹالپر اور دیگر یہاں سے حکمرانی اور فیصلے کیا کرتے تھے۔‘
اس عظیم قلعے کی دیواریں پکی اینٹوں اور پتھروں سے تعمیر کی گئیں جو غیرمعمولی چوڑائی کی وجہ سے لگ بھگ آدھےمربع میل پر پھیلی ہوئی ہیں، قلعے میں 1800کے قریب پرآسائش عمارتیں ہیں جن میں سے اکثر سندھ کے امراء کے محلات ہیں، قلعے کی حفاظت کے لیے ایک بلند و بالا مینار بھی تعمیر کیا گیا جس میں اوپر تک پہنچنے کے لیے 76 زینے ہیں جہاں ایرانی ساخت کی 84پاؤنڈز وزنی چار توپیں بھی نصب کی گئی ہیں۔
قلعے کے زوال کا آغاز 1843 میں ہوا جب چارلس نیپیئر کی سربراہی میں برطانوی فوج نے چڑھائی کر دی، جس کے بعد میرٹالپر کے جنگجوؤں اور فرنگیوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی، اس لڑائی میں ٹالپروں کو شکست دینے کے بعد قلعے پر برطانوی فوج نے قبضہ کر لیا۔