میرپورخاص: مسلمان لڑکی نتاشا ہندو نوجوان سے شادی کے بیان سے مکر گئیں
میرپورخاص سے نوجوان ہندو انیل کمار لوہانو کے گھر سے برآمد کی گئی مسلمان خاتون نتاشا راجپوت اپنے شادی کے بیان سے مکر گئیں، انہوں نے عدالت میں والدین کے گھر جانے کا بیان دے دیا، جس پر عدالت نے انہیں دارالامان بھیج دیا۔
نتاشا راجپوت کو چند دن قبل پولیس نے میرپورخاص سے ہندو نوجوان انیل کمار لوہانو کے گھر سے اپنی تحویل میں لیا تھا۔ پولیس نے اس وقت خاتون کو تحویل میں لیا تھا جب وہاں کے شہری حماد حمید کی فریاد پر ہندو نوجوان کے خلاف دفعہ 493 اے کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔
پولیس نے مقدمہ دائر کرنے کے بعد جہاں نوجوان کو گرفتار کیا تھا، وہیں خاتون کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا تھا، تاکہ کسی طرح کی کشیدگی سے بچا جا سکے۔
مسلمان لڑکی نے بعد ازاں پولیس کے سامنے بیان دیا تھا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے پانچ سال قبل انیل کمار سے پسند کی شادی کی تھی۔ خاتون کے مطابق وہ شادی کے بعد ہندو شوہر کے ساتھ رہ رہی تھیں۔
خاتون نے بتایا تھا کہ نہ تو انہوں نے شوہر کو مذہب تبدیل کرنے کا کہا اور نہ ہی شوہر نے ان پر دباؤ ڈالا اور دونوں نے اپنے آبائی مذاہب تبدیل کیے بغیر ہی شادی کی۔
نتاشا راجپوت نے بتایا تھا کہ ان کا اصل تعلق پنجاب سے ہے، تاہم ان کا خاندان کئی سال سے دارالحکومت کراچی میں مقیم ہے اور انہوں نے وہاں سے آکر انیل کمار سے شادی کی تھی۔
پولیس نے دونوں کو تحویل میں لینے کے بعد 4 اور 5 اگست کو انہیں تھرڈ جوڈیشل میجسریٹ کے سامنے پیش کیا تھا مگر پانچ اگست کو نتاشا راجپوت نے عدالت کے سامنے بیان دیا کہ اب وہ والدین کے گھر جانا چاہتی ہیں۔
سندھی اخبار ’پنھنجی اخبار‘ کے مطابق خاتون نے عدالت کو بتایا کہ وہ انیل کمار لوہانو کے گھر ملازمت کرتی تھیں لیکن اب وہ اپنے والدین کے گھر پنجاب جانا چاہتی ہیں۔
خاتون کے بیان کے بعد عدالت نے انہیں والدین کے گھر بھیجنے کا حکم دیا اور تائید کی کہ جب ان کی باحفاظت واپسی کے انتطامات نہیں کیے جاتے تب تک انہیں سیف ہاؤس یعنی دارالامان میں رکھا جائے۔
خاتون کے بیان کے بعد پولیس نے گرفتار ہندو نوجوان انیل کمار لوہانو کو بھی 50 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم دیا۔
ہندو لڑکے کے ساتھ مسلمان خاتون کی شادی پر میرپورخاص میں کشیدگی کے امکانات پیدا ہوگئے تھے، جس وجہ سے سندھ پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے جوڑے کو اپنی تحویل میں لے کر معاملات کو احسن انداز میں نمٹایا۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کے جنرل ضیا الحق کے دور میں بنائے گئے حدود آرڈیننس کے مطابق کوئی بھی غیر مسلم شخص مسلمان شخص سے مذہب تبدیل کیے بغیر شادی نہیں کر سکتا، البتہ یہودی اور مسیحی اس سے بری الذمہ ہوں گے۔
عام طور پر پاکستان میں ہندو لڑکیوں کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد مسلمان نوجوانوں سے شادیاں کرنے کے معاملات سامنے آتے ہیں، تاہم کافی عرصے بعد پہلی بار کسی مسلمان لڑکی کی جانب سے ہندو لڑکے سے اس کا مذہب تبدیل کرائے بغیر مبینہ شادی کا واقعہ سامنے آیا ہے۔
سندھ بھر سے عام طور پر ہندو لڑکیوں کے مبینہ اغوا کے بعد ان کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ان کی شادیاں مسلمان لڑکوں سے کرنے کی خبریں آئے دن آتی رہتی ہیں۔