شمالی سندھ میں تعلیم و صحت کا نظام تباہ، خواتین علاج کے لیے دربدر

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے شمالی سندھ سے متعلق جاری کردہ اپنی جامع رپورٹ میں علاقے میں جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر حقائق بیان کیے ہیں وہیں کمیشن نے رپورٹ میں گھوسٹ سرکاری اسکولز اور ڈاکٹروں اور طبی عملے سے محروم سرکاری مراکز صحت سے متعلق زمینی حقائق سے مبنی فیکٹ بھی شامل کیے ہیں۔

رپورٹ میں بالخصوص شمالی سندھ کے ضلع کندھ کوٹ میں گھوسٹ سرکاری اسکولز اور ڈاکٹروں اور طبی عملے سے محروم سرکاری مراکز صحت سے متعلق تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

ایچ آر سی پی کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ 2023 بعنوان ’’شمالی سندھ: پائیدار حل کی تلاش‘‘ میں تعلیم، صحت سمیت دیگر موضوعات پر انٹرویوز پر مبنی زمینی حقائق کو پیش کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ایچ آر سی پی کے مشن نے میرپور ماتھیلو، گھوٹکی، لاڑکانہ، شکارپور, جیکب آباد اور کندھ کوٹ کا دورہ کیا اور صحافیوں، وکلا اور سماجی رہنماؤں سمیت متعلقہ علاقوں کے متاثرہ افراد سے تفصیلی انٹرویوز کیے۔

شمالی سندھ میں عورتیں، صحافی اور اقلیتیں غیر محفوظ، ماورائے عدالت قتل بڑھ گئے

ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق شمالی سندھ میں پرائمری اسکولوں کی تعداد ثانوی اسکولوں سے کہیں زیادہ کم ہے جبکہ قبائلی تنازعات کی وجہ سے دیہاتوں کے بیشتر اسکول بند رہتے ہیں اور جو موجود ہیں وہ انتہائی خستہ حالت میں ہیں جہاں مناسب پانی، بجلی، بیت الخلا یا بیٹھنے کی سہولیات کا فقدان ہے جبکہ اساتذہ کی غیر حاضری ایک بڑا مسئلہ ہے۔

رپورٹ میں شمالی سندھ بالخصوص کندھ کوٹ میں سینکڑوں گھوسٹ سرکاری اسکولز کا ذکر کیا گیا ہے۔ فیک فائنڈنگ مشن نے مقامی لوگوں کے حوالے سے بتایا کہ متعدد غیر فعال اسکولوں کی عمارتوں پر مقامی جاگیرداروں کا قبضہ ہے۔

ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں ضلع کشمور کے سینکڑوں سرکاری اسکولوں سے متعلق سنگین انکشاف کئے گئے ہیں۔

رپورٹ میں مقامی این جی اوز کے ارکان کے حوالے سے بتایا گیا کہ سرکاری کاغذوں میں صرف کشمور میں ایک ہزار 499 پرائمری اور 68 ہائیر سیکنڈری اسکول موجود ہیں جبکہ 25 رکنی ٹیم کی جانب سے کیے گئے سروے کے دوران تقریباً 358 اسکولوں کا وجود ہی نہیں تھا۔

’’کاغذوں میں ان گھوسٹ اسکولوں کی اسکول مینجمنٹ کمیٹیاں تھیں اور اساتذہ باقاعدگی سے تنخواہیں لے رہے تھے، تاہم سروے کے دوران حکام تک پہنچنے کے بعد 30 سے 28 اسکول کھولے گئے‘‘۔

رپورٹ کے مطابق مقامی این جی اوز کے ارکان نے بتایا کہ انہوں نے 2016 میں 25 رکنی ٹیم کے ہمراہ ضلع کے تمام اسکولوں کی نشاندہی کے لیے سروے کیا تھا۔

علاوہ ازیں رپورٹ کے مطابق سول سوسائٹی کے ارکان نے تعلیمی نظام کو انتہائی زبوں حالی تک پہنچانے کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی بدعنوانی، بدانتظامی اور بیوروکریسی پر ڈالی ہے۔

ایچ آر سی پی کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں صحت کی مناسب سہولیات کی کمی پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق کندھ کوٹ میں پیپلز پرائمری ہیلتھ انیشی ایٹو (پی پی ایچ آئی) کے متعدد مراکز اور کم از کم ایک چھوٹا ہسپتال یونٹ موجود ہے، جس میں عملہ نہ ہونے کے برابر ہے اور وسائل کی کمی ہے جبکہ ڈاکٹرز شاذ و نادر ہی دستیاب ہوتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ شہریوں سرجیکل علاج کے لیے لاڑکانہ اور سکھر کا سفر کرنے پر مجبور ہیں جبکہ خواتین کو امراض نسواں کے مراکز تک رسائی میں صحت کے غیر معمولی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ایچ آر سی پی نے اپنی سفارشات میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ شمالی سندھ میں گھوسٹ اسکولوں کی نشاندہی کرکے انہیں فوراً بند کیا جائے جبکہ سول سوسائٹی کو گھوسٹ اسکولوں اور انہیں کی جانے والے فنڈنگ روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

علاوہ ازیں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے حکومت سندھ پر زور دیا کہ شمالی سندھ کے ہر ضلع میں گائناکولوجیکل سینٹر اور چائلڈ کیئر سینٹرز قائم کیے جائیں جبکہ 2013 کے ری پروڈکٹو اینڈ ہیلتھ کیئر رائٹس ایکٹ کو بھی نافذ کیا جائے۔