جان محمد مہر قتل کیس: پاکستان اور سندھ حکومت ہائی کورٹ طلب

سندھ ہائیکورٹ سکھر بینچ نے مقتول صحافی جان محمد مہر کے قتل کی تفتیش کے لیے دائر درخواست پر کیبنٹ ڈویژن، وزارت دفاع اور سندھ حکومت، وزارت داخلہ، آئی جی سندھ پولیس اور ڈی جی رینجرز کو کو نوٹس جاری کر دیے۔

سکھر پریس کلب کے نائب صدر لالا شھباز پٹھان کی جانب سے دائر درخواست پر جسٹس اقبال احمد کلھوڑو اور جسٹس ارباب علی ھکڑو نے سماعت کی۔

جان محمد مھر کے قاتلوں اور کچے میں موجود ڈاکوؤں کے خلاف رینجرز اور فوج کی نگرانی میں آپریشن کیلئے سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ میں سماعت ہوئی۔

ایڈوکیٹ بیرسٹر خان غفار خان کی معرفت سکھر پریس کلب کے نائب صدر لالہ شہباز خان کی آئینی درخواست پر سندھ ہائی کورٹ سکھر کی ڈبل بینچ نے کیبنٹ ڈویژن، وزارت دفاع اور سندھ حکومت، وزارت داخلہ، آئی جی سندھ پولیس اور ڈی جی رینجرز کو کو نوٹس جاری کیے۔

جان محمد مہر کے ورثا کو سندھ حکومت نے ایک کروڑ روپے کا چیک دے دیا

دوران سماعت بیرسٹر خان غفار خان نے دلائل دیے کہ کندھکوٹ، گھوٹکی، شکارپور اور سکھر کے کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں جہاں پولیس بھی نہیں جا سکتی۔

انہوں نے کہا کہ کچے کے علاقے پولیس کیلئے نوگو ایریاز بنے ہوئے ہیں جبکہ شہید جان محمد مھر اور پروفیسر اجمل ساوند کے قاتلوں نے بھی کچے میں ڈاکوؤں کے پاس پناہ لی ہوئی ہے۔

ڈاکوؤں نے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ساگر کمار سمیت کئی دیگر افراد کو بھی تاوان کیلئے اغوا کیا ہوا ہے۔

انہوں نے دلائل دہے کہ دو سال قبل سکھر کے علاقے سنگرار سے اغوا ہونے والی معصوم بچی پریا کماری بھی اب تک بازیاب نہیں ہوسکی۔

جان محمد مہر قتل کیس: مجموعی طور پر 25 افراد گرفتار

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق کچے کے علاقے میں ایک سو سے زائد افراد کو ڈاکوؤں نے تاوان کیلئے مغوی بنایا ہوا ہے، اسی لیے کچے میں موجود ڈاکوؤں کے خلاف پاک فوج، رینجرز اور پولیس کا مشترکہ گرینڈ آپریشن کیا جائے، امن و امان کو قائم رکھنے کیلئے مستقل اقدامات کیے جائیں۔

سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ نے دلائل سننے کے بعد درخواست پر 12 اکتوبر کو سماعت مقرر کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔

واضح رہے کہ 13 اگست کی رات کو سکھر میں نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں صحافی جان محمد مہر جاں بحق ہوگئے تھے۔

دو دن بعد جان محمد مہر کے قتل کا مقدمہ درج، 16 ملزمان نامزد

صحافی جان محمد مہر پر آفس سے گھر جاتے ہوئے کوئنس روڈ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا جس کے باعث وہ زخمی ہوئے تھے اور انہیں تشویشناک حالت میں نجی اسپتال منتقل کیا گیا تھا تاہم وہ دوران علاج اسپتال میں دم توڑ گئے تھے۔

قتل کے دو دن بعد ان کے بھائی اکرم اللہ مہر کی مدعیت میں سی سیکشن تھانے میں ان کا مقدمہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دائر کیا گیا تھا اور پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 18 اگست تک مجموعی طور پر تین ملزمان کو گرفتار کرکے ان کا ریمانڈ بھی حاصل کیا تھا۔

سندھ حکومت نے صحافیوں کے مطالبے پر 17 اگست کو جان محمد مہر کے قتل کی تفتیش کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی، جس نے 19 اگست کو سکھر کا دورہ کرکے اپنی تفتیش کا آغاز کیا تھا جب کہ پولیس مقدمے میں نامزد صرف تین ملزمان کو ہی گرفتار کر سکی ہے۔

سکھر میں سینیئر صحافی جان محمد مہر قتل

مقدمے میں نامزد دیگر مرکزی ملزمان کی عدم گرفتاری کے خلاف سندھ بھر میں مظاہرے جاری ہیں، سکھر، لاڑکانہ، چک، شکارپور، لکھی غلام شاہ، کندھ کوٹ و کشمور، خیرپور، نوشہروفیروز اور حیدرآباد سمیت دیگر شہروں میں بھی صحافیوں کی جانب سے مظاہرے کیے گئے۔

سندھ حکومت نے 27 اگست کو جان محمد مہر کے ورثا کو ایک کروڑ روپے کا اعلان کردہ چیک بھی فراہم کیا تھا.

ایک ماہ کا عرصہ گزرجانے کے باوجود ان کے کیس میں مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔