دو دن بعد جان محمد مہر کے قتل کا مقدمہ درج، 16 ملزمان نامزد

سکھر پولیس نے دو دن قبل قتل کیے گئے سینیئر صحافی و اینکر جان محمد مہر کے قتل کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) ان کے بھائی کی فریاد پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت دائر کردی۔

جان محمد مہر کو 13 اگست کو سکھر میں محمد بن قاسم پارک کے قریب مسلح ملزمان نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

جان محمد مہر کو انتہائی تشویش ناک حالت میں اسپتال لے جایا گیا تھا لیکن وہ جاں بر نہ ہوسکے تھے اور پولیس نے ابتدائی طور پر خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ان کا قتل ذاتی دشمنی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔

جان محمد مہر کے قتل کے دو دن بعد ان کے بڑے بھائی کرم اللہ مہر کی فریاد پر سی سیکشن تھانے میں دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 302 سمیت تعزیرات پاکستان کی دیگر دفعات کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا۔

سکھر میں سینیئر صحافی جان محمد مہر قتل

ایف آئی آر میں مجموعی طور پر 6 ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے جب کہ مزید تین نامعلوم ملزمان کو بھی مقدمے میں دائر کیا گیا ہے۔

مقدمے میں ملزم شیر محمد عرف شیرل ولد محمد یعقوب، نصیر ولد تاج محمد، قربان ولد تاج محمد، روشن ولد تاج محمد، گلزار ولد شیر محمد، میر محمد ولد میر فقیر کو نامزد کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق مذکورہ تمام ملزمان مہر قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ جان محمد مہر کے آبائی گاؤں کے قریبی گاؤں نئوں چیمن تعلقہ لکھی غلام شاہ، چک کے رہائشی ہیں۔

مقتول کے بھائی نے پولیس کو بتایا کہ ملزم شیر محمد عرف شیرل نے جان محمد مہر پر فائرنگ کردی، جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے، جسے فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا۔

مقدمے میں دیگر ملزمان کو بطور سہولت کار اور جان محمد مہر کے قتل کا منصوبہ جوڑنے والوں کے طور پر بھی نامزد کیا گیا ہے۔

مقتول صحافی جان محمد مہر کون تھے؟

مقدمے میں نامزد ملزمان اور حملہ آوروں کے علاوہ نامزد کیے گئے دیگر سات سہولت کاروں کا تعلق بھی مہر قبیلے سے ہی ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق جان محمد مہر کے بھائی کرم اللہ نے بتایاکہ انہیں اپنے بیٹے عامر علی نے بتایا تھا کہ ملزمان نے 12 اگست کو سکھر کے نمائش چوک کے ایک ہوٹل پر جان محمد مہر کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔

مقدمے کے مطابق کرم اللہ مہر کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے عامر علی سکھر کے نمائش چوک پر موجود ہوٹل پر چائے پینے گئے تھے، جہاں تمام ملزمان جان محمد مہر کو اپنے راستے سے ہٹانے اور منصوبے کو انجام تک پہنچانے کی باتیں کر رہے تھے۔

ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ عامر علی نے ملزمان کی باتیں سننے کے بعد اپنے چچا جان محمد مہر کو بھی ان باتوں سے باخبر کیا تھا۔

ایف آئی آر میں جان محمد مہر کے قتل کو ذاتی دشمنی قرار نہیں دیا گیا لیکن نامزد کیے گئے تمام ملزمان کا تعلق مہر قبیلے سے ہے اور تقریبا تمام ملزمان مقتول صحافی کے قریبی گاؤں کے رہائشی تھے۔

پولیس کی جانب سے دائر کردہ ایف آئی آر کو انسداد دہشت گردی سکھر کی عدالت میں پیش کردیا گیا ہے۔

دوسری جانب سندھ بھر میں جان محمد مہر کے قتل کے خلاف صحافی تنظیمیں سراپا احتجاج پذیر ہیں اور وہ ملزمان کو گرفتار کرکے انہیں منطقی انجام تک پہنچانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔