مرتضیٰ بھٹو قتل کیس کا پیپر بک 12 سال گزرجانے کے باوجود نہ بن سکا
سندھ ہائی کورٹ میں میر مرتضیٰ بھٹو قتل کیس کی 14 سال بعد سماعت ہوئی، جس دوران عدالت کو بتایا گیا کہ مذکورہ کیس کا پیپر بک تاحال نہیں بن سکا جب کہ عدالت اسے 2011 میں بنانے کا حکم دے چکی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے مقدمے میں ملوث ملزمان کی بریت کیخلاف درخواست گزار ملازم نورمحمد گوگا کی اپیلوں پر سماعت ہوئی، جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے کیس کی سماعت کی۔
پی پی شہید بھٹو کی جانب سے مرتضیٰ بھٹو کے گھریلو ملازم نور محمد گوگا نے ملزمان کی بریت کے خلاف جنوری 2010 میں سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، جن پر عدالت نے گزشتہ ماہ اگست میں سماعتوں کی منظوری دی تھی اور 19 ستمبر کو 14 سال بعد کیس کی دوبارہ سماعتیں ہوئیں۔
دوران سماعت جب عدالت نے سرکاری وکلا سے پوچھا کہ مذکورہ کیس کا پیپر بک کہاں ہے،جس پر وکلا نے بتایا کہ وہ تاحال نہیں بن سکا۔
عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ کیس کی پیپر بک بنانے کا کب حکم دیا گیا تھا، جس پر وکیل نے بتایا کہ عدالت نے 2011 میں اپیلوں کی پیپر بک بنانے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتنے عرصے کے بعد بھی حکم پر تاحال عملدرآمد نہیں ہوا، عدالت نے تمام فریقین کو 3 دن میں کیس کا پیپر بک بنانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ حکم پر عملدرآمد نہ کیا توسخت حکمنامہ جاری کریں گے۔
سرکاری وکیل نے سندھ ہائیکورٹ کو بتایا کہ کیس میں 18 ملزمان نامزد تھے اور شاہد حیات سمیت کچھ انتقال کر چکے ہیں جب کہ بعض کو عدالتوں نے بری کردیا تھا۔
عدالت نے تین دن کے اندر پیپر بک تیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے اپیلوں پر سماعت تین ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی۔
مرتضیٰ بھٹو کو 20 ستمبر 1996 میں پولیس کے وردی میں ملبوس افراد نے قتل کیا تھا اور مذکورہ کیس کی آخری سماعتیں دسمبر 2009 میں صوبائی دارالحکومت کراچی کی مقامی عدالتوں میں ہوئی تھیں۔
مرتضیٰ بھٹو کے قتل میں ملوث ملزمان کو دسمبر 2009 میں ایڈیشنل سیشن جج شرقی آفتاب احمد نے عدم شواہد کی بنا پر بری کردیا تھا، جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) شہید بھٹو نے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس کے بعد مرتضیٰ بھٹو کے گھریلو ملازم نور محمد گوگا نے 2010 میں ملزمان کی بریت کے خلاف درخواستیں جمع کرائی تھیں۔
مرتضیٰ بھٹو کا قتل
مرتضیٰ بھٹو کو سمتبر 1996 میں دارالحکومت کراچی کلفٹن میں ان کی آبائی رہائش گاہ کے قریب ایک پولیس مقابلے میں سات ساتھیوں سمیت قتل کیا گیا تھا۔ مرتضی بھٹو کے قتل کے وقت ان کی بہن بینظیر بھٹو پاکستان کی وزیراعظم تھیں۔ بعد میں ان کی حکومت ختم کردی گئی تھی۔
اس وقت کی میڈیا رپورٹس کے مطابق مرتضیٰ بھٹو، کراچی میں ایک سیاسی میٹنگ میں شرکت کے بعد گھر واپس لوٹ رہے تھے کہ ان کے گھر کے نزدیک پولیس کے مسلح اور مورچہ بند افراد نے انہیں رکنے کا اشارہ کیا، پولیس جناب مرتضیٰ بھٹو کے ان محافظوں کو گرفتار کرنا چاہتی تھی جن پر غیر قانونی اسلحہ رکھنے اور دہشت گردی کے بعض واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات تھے مگر جونہی میر مرتضیٰ بھٹو کا قافلہ روکا گیا۔
ان کی پولیس افسر کے ساتھ تکرار ہوگئی۔ میر مرتضیٰ بھٹو کے محافظوں نے مشتعل ہوکر فائرنگ شروع کردی جس کے جواب میں پولیس نے بھی فائرنگ کی اور اس فائرنگ کے نتیجے میں میر مرتضیٰ بھٹو اور ان کے قریبی ساتھی عاشق حسین جتوئی سمیت 6 ساتھی ہلاک ہوگئے
مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا مقدمہ
واقعےکے بعد سرکار اور مرتضٰی بھٹو کے ملازم نور محمد کی مدعیت میں دو مقدمات درج کیےگئے تھے اور بعد ازاں مزید دو مقدمے دائر کیے گئے تھے۔
واقعے کی چار مختلف ایف آئی آرز دائر کی گئی تھیں، جبکہ ایک سو دو گواہ تھے جن میں مرتضیُ بھٹو کی اہلیہ غنویٰ بھٹو اور بیٹی فاطمہ بھٹو بھی شامل تھیں۔ دس سالوں میں بتیس گواہوں کے بیانات قلبند کیے گئے تھے۔
مجموعی طور پر تمام مقدمات میں 23 مرکزی ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا۔
ابتدائی ایف آئی آرز میں آصف زرداری کا نام شامل نہیں تھا مگر بعد میں ایک گواہ اصغر علی کے اس بیان کے بعد ان کا نام شامل کیا گیا جس میں انہوں نے کہا کہ اس نے زخمی مرتضیُ بھٹو کوعاشق جتوئی سے یہ بات کرتے ہوئے سنا تھا ’ آصف علی زرداری اور وزیر اعلیٰ عبداللہ شاہ نے پولیس سے یہ کام کروالیا اور وہ جیت گئے ہم ہار گئے۔‘
اس سے قبل اصغر علی نے بیان دیا تھا کہ انہوں نے جب عاشق جتوئی کو آواز دی تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا البتہ اس نے مرتضیُ بھٹو کے کراہنے کی آواز سنی تھی۔
مقدمات میں اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری، سابق وزیر اعلیٰ عبداللہ شاہ، ڈی آئی جی شعیب سڈل، ایس ایس پی واجد درانی، اے ایس پی رائے طاہر، اے ایس پی شاہد حیات، پولیس افسر شبیر قائمخانی اور آغا طاہر ملزم قرار دیئے گئے تھے۔
مرتضیٰ بھٹو قتل کیس کی تحقیقات
اس ہائی پروفائیل کیس کی جہاں پولیس کی چار ٹیمیں تحقیقات کرچکی ہیں وہاں سپریم کورٹ کے حکم پر تحقیقاتی ٹربیونل بھی قائم کیا گیا تھا۔
حکومت کی جانب سے تین رکنی ٹریبونل تشکیل دیا گیا، جس کے سربراہ جسٹس ناصر اسلم زاہد تھے اور ارکان میں جسٹس امان اللہ عباسی اور جسٹس ڈاکٹر غوث شامل تھے۔
اس ٹریبونل نے کئی ماہ تک گواہان کے بیانات قلمبند کئے اور اس نتیجے پر پہنچا کہ مرتضیٰ بھٹو اور ان کے کارکنوں کا قتل، ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا جس کی منظوری اعلیٰ اتھارٹی نے دی تھی۔ مگر اس منصوبہ کے مطابق مرتضیٰ بھٹو کو نہیں بلکہ ان کے محافظین کو قتل کیا جانا تھا۔
مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں ملوث ملزمان کی بریت
مذکورہ ہائی پروفائل کیس کی درجنوں سماعتیں ہوئیں، متعدد تحقیقات ہوئیں اور عدالتی ٹربیونل نے بھی اپنی رپورٹس پیش کیں لیکن اس باوجود اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
دسمبر 2009 میں دارالحکومت کراچی کے ضلع شرقی کی عدالت میں ایڈیشنل سیشن جج آفتاب احمد نے واقعے کے 13 سال بعد مقدمے میں نامزد تمام ملزمان کو بری کردیا۔
عدالت نے مقدمے میں نامزد سابق سربراہ انٹیلیجنس بیورو مسعود شریف، وفاقی ٹیکس محتسب شعیب سڈل، ایڈیشنل آئی جی سندھ واجد علی درانی، ای آئی جی پولیس ویلفیئر سندھ شاہد حیات، ایس ایس پی رائے طاہر، آغا جمیل، عبدالباسط، راجہ حمید، فیصل اور بشیر قائم خانی سمیت اٹھارہ ملزمان کو بری کیا تھا۔
مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں نامزد 23 ملزمان نامزد ملزمان میں سے آصف علی زرداری اور شکیب قریشی 2008 میں ہی بری ہوچکے تھے۔
کیس میں نامزد سابق وزیراعلی سندھ سید عبداللہ شاہ اور انسپکٹر ذیشان کاظمی کے فوت ہوجانے کی وجہ سے ان ک نام نکال دیا گیا تھا جبکہ ایک اور پولیس افسر حق نواز سیال نے مبینا طور پر خودکشی کر لی تھی اور ان کا نام بھی مقدمے سے خارج کردیا گیا تھا۔
مذکورہ ہائی پروفائل کیس میں نامزد شاہد حیات سمیت دیگر افراد بھی فوت ہوچکے ہیں لیکن بری کیے گئے 18 نامزد ملزمان میں سے متعدد ابھی زندہ ہیں اور ان کی بریت کے خلاف 2010 میں درخواست دائر کی گئی تھی، جس پر اب 14 سال بعد سماعت ہوئی۔