بطور سندھی خود کو مخلوط النسل افراد اور جانوروں کا محافظ سمجھتا ہوں، جونیئر ذوالفقار بھٹو

سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے واحد پوتے اور میر مرتضیٰ بھٹو کے بیٹے جونیئر ذوالفقار علی بھٹو نے کہا ہے کہ انہوں نے آنکھ کھلتے ہی سیاست دیکھی، ان کا بچپن سیاست کے دائو پیچ کو دیکھتے اور سمجھتے ہی گزرا مگر انہیں شروع سے ہی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور بطور سندھی وہ خود کو سندھ کی قدیم ثقافت، آرٹ اوریہاں موجود نایاب سمندری مخلوق اور مخلوط النسل افراد کا محافظ سمجھتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کو بھٹو خاندان کا واحد اور اصل مالک کہا اور سمجھا جاتا ہے جو کہ بینظیر بھٹو کے بھتیجے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو جونیئر میر مرتضیٰ بھٹو کے بیٹے اور فاطمہ بھٹو کے بھائی ہیں اور پاکستان کے اہم ترین سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ سیاست میں دکھائی نہیں دیتے۔

ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کو زیادہ تر آرٹ اور فنون لطیفہ کے دیگر شعبوں میں مہارت دکھاتے ہوئے دیکھا جاتا ہے، انہوں نے عالمی سطح پر بھی فنون لطیفہ کے کئی پروگرامات میں حصہ لے کر ان میں پرفارمنس بھی کی۔

سیاسی خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے سندھ بھر کے لوگوں کو ان میں مستقبل کے اہم سیاستدان اور رہنما کی جھلک دکھائی دیتی ہے مگر وہ ذاتی طور پر خود کو سیاست سے دور رکھتے ہیں۔

حال ہی میں انہوں نے خود کو سیاست سے دور رکھنے کے حوالے جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو اردو) سے بات کی اور بتایا کہ ان کی سیاست سے دوری کی ایک وجہ یہ بھی ہے  اب پاکستان میں سیاست عوام کے حقیقی مسائل کو حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کو عام طور پر سندھی ٹوپی میں دیکھا جاتا ہے—فوٹو: انسٹاگرام

انہوں نے بتایا کہ ایک طرف لوگوں سیلاب اور بارشوں کی نظر ہو رہے ہیں تو دوسری طرف مہنگائی، ماحولیاتی کی تبدیلی اور غربت سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے لوگ بدتر زندگی گزار رہے ہیں مگر دوسری جانب سیاست اپنے اپنے کھیلوں میں لگے ہوئے ہیں، جس سے ثابت ہوتا کہ اب سیاست عوامی مسائل کا حل نہیں رہی اور ان کی سیاست سے دوری کی دیگر وجوہات سمیت یہ بھی ایک وجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ خود کو ٹیکسٹال آرٹسٹ اور مخلوط النسل افراد سمیت نایاب سمندری مخلوق کے محافظ کے طور پر متعارف کراتے ہیں اور انہیں ٹیکسٹائل آرٹ کے ذریعے سندھی ثقافت اور تاریخ کو پیش کرنے کا بہت شوق ہے۔

ان کے مطابق وہ جس جدید ٹیکسٹائل آرٹ کے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں، دراصل وہ سندھ میں خواتین کی جانب سے بنائی جانے والی رلی یا رلھی کی ایک قسم ہے، کیوں کہ وہ بھی مختلف اقسام کے کپڑوں کو ایک جگہ ملا کر ایک منفرد چیز بناتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ خود کو سندھ میں پائی جانے والی نایاب سمندری مخلوق کا محفاظ بھی قرار دیتے ہیں۔

 

چند سال قبل ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کی خواتین سے مشابہہ لباس میں ڈانس کی ویڈیوز وائرل ہوئی تھیں—اسکرین شاٹ

ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کا کہنا تھا کہ سندھ ملک کا وہ واحد خطہ ہے، جہاں دنیا میں نایاب سمجھی جانے والی بلائنڈ ڈالفن (جسے مقامی زبان میں اندھی بلھن) کہا جاتا ہے وہ پائی جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 1970 تک سندھ میں 150 اندھی بلھن دریائے سندھ میں موجود تھیں، جن کے شکار پر اس وقت حکومت نے پابندی لگائی اور اسے محفوظ بنانے کے لیے خصوصی اقدامات اٹھائے، جس وجہ سے اب ان کی تعداد 2 ہزار تک جا پہنچی ہے۔

ذوالفقار علی جونیئر بھٹو کے مطابق پاکستان میں پائی جانے والی اندھی بلھن کی 200 میں سے 1500 بلھن صوبہ سندھ میں پائی جاتی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انہیں سندھ کے قدیم لوک آرٹسٹوں نے بہت متاثر کیا ہے، وہ سندھ کی دیہی خواتین کے آرٹ سمیت گمنام فنکاروں کے فن سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور ان کے فن کو دیکھ کر وہ ان جیسی نئی چیزیں بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کےمطابق انہیں ٹیکسٹائل آرٹ پر سندھ کی ثقافت کو پیش کرنے کا جنون ہے—فوٹو: انڈیپینڈنٹ اردو

انٹرویو کے دوران انہوں نے بتایا کہ انہیں پاکستان میں مخلوط النسل افراد کے حقوق کے رہنما ہونے پر فخر ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کے مطابق پاکستان میں اب لوگ خواجہ سرا افراد کو جانتے ہیں اور انہیں مانتے ہیں مگر تاحال ملک میں ہم جنس پرست افراد سمیت دیگر جنسی خواہشات رکھنے والے افراد کو تسلیم نہیں کیا جاتا جو کہ غلط ہے۔

انہوں نے دلیل دی کہ جس طرح ہم مسلمان، ہندو اور مسیحی ہونے کے باوجود پاکستانی بھی ہیں، اسی طرح ہم مرد، خاتون اور خواجہ سرا کے علاوہ ایل جی بی ٹی ہونے کے باوجود بھی پاکستانی ہیں اور ہر کسی کو اپنی شناخت کا حق حاصل ہے۔

یاد رہے کہ ایل جی بی ٹی ( LGBT) انگریزی میں lesbian, gay, bisexual, اور transgender کے ناموں کا مخخف ہے۔

یہ اصطلاح ان مرد یا خواتین حضرات کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے جو ہم جنس پرستی کی جانب راغب ہوتی ہیں اور اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے بعض مرد یا خواتین کسی بھی جنس کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کرتے ہیں، جس وجہ سے انہیں عام معاشروں میں پسند نہیں کیا جاتا۔

دنیا کے عام معاشروں میں صرف مرد و خواتین کے جنسی تعلقات کو ہی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، تاہم گزشتہ تین دہائیوں سے دنیا بھر میں مخلوط النسل یا جنس کے افراد کی تحریکیں تواتر سے چلتی دکھائی دیتی ہیں اور ذوالفقار علی بھٹو جونیئر خود پاکستان میں موجود اسی نسل کے حقوق کے رہنما قرار دیتے ہیں۔

 

ذوالفقار علی جونیئر کی جانب سے تیار کردہ ٹیکسٹائل آرٹ کا ایک نمونہ—فوٹو: انڈیپینڈنٹ اردو