سکھر میں فاطمہ فرڑہو کانفرنس کا انعقاد، مقتول اور لاپتا بچیوں کی مائیں رو پڑیں
شمالی سندھ کے سب سے بڑے شہر اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹر سکھر میں سندھ ویمن ایکشن فورم کی جانب سے صنفی تشدد کے خاتمے کے لیے ایک روزہ فاطمہ فرڑیو کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں شمالی سندھ کی ان تمام ماؤں کو بھی بلایا گیا، جن کی بچیوں کو بہیمانہ تشدد میں ہلاک کیا گیا یا جن کی بیٹیاں اغوا کے بعد تاحال لاپتا ہیں۔
سندھ ویمن ایکشن فورم کی رہنما امر سندھو کی جانب سے فیس بک پر کانفرنس کی براہ راست نشریات چلائی گئی۔
کانفرنس میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی پی) سکھر عبدالحمید کھوسو، سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) سکھر عرفان سموں، ایس ایس پی خیرپور سمیع اللہ سومرو سمیت فاطمہ فرڑیو کے وکیل اور دیگر سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کے رہنماؤں نے شرکت کی۔
ایک روزہ کانفرنس میں سندھ بھر میں بڑھتے ہوئے صنفی تشدد پر بات کی گئی، تاہم خصوصی توجہ شمالی سندھ کے اضلاع پر دی گئی اور کانفرنس میں لیڈی پولیس افسران نے بھی اپنی مشکلات کا ذکر کیا۔
کانفرنس کے دوران سیاسی، سماجی، سرکاری اور انسانی حقوق کے رہنماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ شمالی سندھ میں صنفی تشدد اور خصوصی طور پر خواتین اور کم سن بچوں پر تشدد، ان کے اغوا اور ان سے جبری مشقت کروانے جیسے جرائم کا خاتمہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
کانفرنس کے دوران فاطمہ فرڑیو کی والدہ نے بھی بات کی اور انہوں نے بیٹی کے کیس پر عدم اعتماد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پولیس کی جانب سے کی جانے والی تفتیش اور عدالتی کارروائیوں پر یقین ہے اور وہ بیٹی کے قاتلوں پیر اسد شاہ اور حنا شاہ کو سزا دلوا کر رہیں گی۔
کانفرنس کے دوران جیکب آباد سے 17 سال قبل لاپتا ہونے والی 9 سالہ کم سن بچی فضیلہ سرکی کی والدہ سکینا سرکی بیٹی پر بات کرتے ہوئے رو پڑیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب ان کی بیٹی لاپتا ہوئیں تھیں تب وہ 9 سال کی تھیں اور ان کی گمشدگی کو 17 سال گزر چکے ہیں اور تاحال اس کا کوئی پتا نہیں چل سکا، حکومت اور عدالتیں مجھے انصاف فراہم نہیں کر سکیں۔
کانفرنس میں جیکب آباد سے ہی تعلق رکھنے والی خاتون صحبت خاتون نے بھی خطاب کیا اور بتایا کہ ان کی کم سن بیٹی گزشتہ ماہ 6 ستمبر کو دودھ لینے گئی تھیں، جسے قتل کیا گیا اور عدالت ان کی قبر کشائی کا حکم دے چکی ہے لیکن اس باوجود تاحال قبر کشائی نہیں کی گئی اور نہ ہی انہیں انصاف کی امید ہے۔
کانفرنس کے دوران حکومت سے مطالبہ کیا گیاکہ صوبے میں خواتین اور بچوں پر تشدد کے واقعات کو کم کرنے کے لیے پولیس اور عدالتی نظام کو آزاد اور زیادہ مضبوط بنایا جائے۔