سندھ کی پہلی خاتون صحافی پروفیسر شاہدہ قاضی انتقال کرگئیں
نہ صرف سندھ بلکہ پاکستان کی بھی پہلی خاتون صحافی کا اعزاز رکھنے اور ہزاروں صحافیوں کی استاد پروفیسر شاہدہ قاضی 79 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں، ان کی رحلت پر ملک بھر کی صحافتی برادری نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔
شاہدہ قاضی سندھ کے مشہور علمی و ادبی علامہ آئی آئی قاضی کے خاندان میں 1944 میں پیدا ہوئیں، انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے جرنلزم کیا، وہ صحافت کی تعلیم حاصل کرنے والی بھی سندھ کی پہلی خاتون تھیں۔
کراچی یونیورسٹی میں ماس کمیونی کیشن کے ڈیپارٹمنٹ کے کھلنے کے اگلے سال ہی شاہدہ قاضی نے اس میں داخلہ لیا اور وہ نہ صرف پہلی ایم اے صحافت حاصل کرنے والی لڑکی بنیں بلکہ جلد ہی وہ پہلی صحافی بھی بنیں۔
انہیں 1966 میں ایم اے کی تعلیم مکمل کرتے ہوئے معروف انگریزی اخبار ڈان کے سٹی ایڈیٹر نے ملازمت کی پیش کش کی اور یوں وہ پہلی خاتون رپورٹر بنیں اور انہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد جناح کی بہن فاطمہ جناح کے انتقال سمیت کئی تاریخی خبروں کی شاندار کوریج کی۔
ڈان میں کافی عرصے تک ملازمت کرنے کے بعد انہیں سرکاری ٹیلی وژن پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی)میں پہلی خاتون نیوز ایڈیٹر کے طور پر ملازمت دی گئی اور انہوں نے وہاں 20 سال تک خدمات سر انجام دیں، بعد ازاں وہ شعبہ درس و تدریس سے بھی منسلک ہوگئیں۔
اپنے کیریئر کے دوران انہوں نے متعدد اخبارات اور جرائد میں اعلیٰ عہدوں پر بھی فرائض سر انجام دیے اور کراچی یونیورسٹی کے ماس کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ میں پڑھانے کے دوران انہوں نے ہزاروں طلبہ کو صحافت سکھائی اور پڑھائی۔
وہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کی سربراہ بھی رہیں جب کہ انہیں دیگر یونیورسٹیز نے بھی اپنے ہاں شعبہ صحافت میں اہم عہدوں پر رکھا اور انہوں نے مجموعی طور پر 60 سال سے زائد عرصے تک پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیں۔
کراچی پریس کلب نے انہیں ستمبر 2023 میں تاحیات میمبر شپ بھی عطا کی تھی جب کہ فروری 2023 میں انہوں نے اپنی سوانح عمری بھی شائع کی تھی۔
پروفیسر شاہدہ قاضی کی سوانح عمری ’Sweet, sour and bitter life well lived‘ کی تقریب رونمائی کراچی پریس کلب میں ہوئی تھی۔
تقریب رونمائی میں اظہار خیال کرتے ہوئے شاہدہ قاضی نے کہا کہ کتاب کو لکھنے میں اساتذہ اور ساتھیوں نے بہت مدد کی، طالب علموں اور ٹیچرز کی طرف سے ملنے والی سپورٹ پر اُن کی مشکور ہوں‘۔
انہوں نے کہا تھا کہ جامعہ کراچی کے شعبہ صحافت میں داخلہ لیے 60 سال ہوچکے ہیں۔ اس وقت محکمہ خود بمشکل ایک سال کا تھا اور مجھے اس وقت احساس نہیں تھا کہ میں اس وقت کورس میں داخلہ لینے والی پہلی خاتون تھی اور گولڈ میڈل حاصل کیا‘۔
پروفیسر قاضی نے کہا تھا کہ ان کی زندگی کا اصول یہ ہے کہ ہمیشہ مثبت رہیں اور منفی خیالات کو پھینک دیں۔ “سب کے ساتھ حسن سلوک کریں اور بہت سادہ زندگی گزاریں۔ میں اس زندگی کے لئے شکر گزار ہوں۔
انہوں نے خطاب میں کہا تھا کہ میں نے نوکری نہیں مانگی تھی لیکن مجھے ڈان کے اس وقت کے سٹی ایڈیٹر نے اس کی پیشکش کی تھی، جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ میں ڈان کی پہلی خاتون رپورٹر بھی ہوں۔ پھر پی ٹی وی آیا جہاں میں نے 20 سال تک کام کیا، پہلے بطور نیوز پروڈیوسر اور پھر نیوز ایڈیٹر، جس کے بعد میں نے اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی۔ میں نے کراچی یونیورسٹی میں جو وقت گزارا، اور طلباء، اساتذہ کی طرف سے جو تعاون، احترام مجھے ملا، میں اس کا شکر گزار ہوں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’’میں 60 سال کی عمر میں ریٹائر ہوئی، گھر بیٹھنے کا وقت ہو سکتا تھا، لیکن پھر مجھے نجی یونیورسٹیوں نے بلایا۔ میں نے کئی نجی یونیورسٹیوں میں کام کیا ہے اور وہاں وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر بھی کام کیا۔ کورونا وبا کے بعد سے آن لائن کلاسز کی وجہ سے یہ سلسلہ فی الحال رک گیا ہے۔