عالمی و ملکی ایوارڈ یافتہ کسانوں کے حقوق کی رہنما ویرو کولھی چل بسیں

سندھ میں مظلوم کسانوں (ھاریوں) کے حقوق کی رہنما، عالمی اور ملکی ایوارڈ یافتہ انسانی حقوق کی علمبردار ویرو کولھی 70 سال کی عمر میں سانس میں تکلیف کے باعث چل بسیں۔

ضلع حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی ویرو کولھی نے کئی سال تک خاندان سمیت زمینداروں کے پاس کام کیا، انہوں نے ضلع عمرکوٹ میں ایک زمیندار کے پاس خاندان کے افراد سمیت 2 سال کام کیا لیکن زمیندار نے حساب کتاب کیے بغیر انہیں اناج دینے سے انکار کیا جب کہ انہیں اور ان کے خاندان کو غلام بنا کر قید کردیا۔

انہوں نے کچھ سال قبل بی بی سی اردو کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ ایک دن وہ نجی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئیں اور سورج کی تپش میں بغیر چپل کئی میل کا سفر پیدل طے کرکے کنری شہر پہنچیں جہاں جان پہچان والوں کے ذریعے بھائیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئیں۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے بھائی اپنے مال مویشی بیچ کر 20 ہزار روپے لے کر زمیندار کے پاس پہنچے تاکہ خاندان کے دوسرے لوگوں کو رہا کرائیں لیکن زمیندار نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ قرضہ چار لاکھ روپے ہے اس کے ساتھ یہ بھی مطالبہ کیا کہ ویرو کہاں ہے اس کو ہمارے حوالے کرو تاکہ اس کو گولی مار دیں۔’

اور بعد ازاں انہوں نے بھائیوں اور دیگر افراد کی مدد سے پولیس سے بھی رابطہ کیا لیکن الٹا پولیس نے انہیں ہی تشدد کا نشانہ بنایا اور ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ واپس زمیندار کے پاس جائیں لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا جس پر پولیس نے تنگ آکر انہیں رہا کردیا۔

اس کے بعد انہوں نے آزادی کی زندگی گزاری اور ویرو کوہلی نے محنت مزدوری کرتے ہوئے ساتھ میں دیگر کسانوں کی رہائی کے لیے بھی کوششیں کرتی رہیں۔ اس طرح انھوں نے 400 کسان رہا کروائے۔ کسانوں کے لیے کام کرنے والی تنظیم ‘گرین رورل ڈوہلپمنٹ ارگنائزیشن’ نے انہیں 2009 میں فریڈرک ڈگلس فریڈم ایوارڈ کے لیے نامزد کیا۔

مذکورہ ایوارڈ کے بعد ان کے حوصلے بلند ہوئے اور انہوں نے تواتر سے کسانوں کے حقوق کے لیے کام کرنا شروع کیا اور امریکی ایوارڈ سے ملنے والی رقم سے انہوں نے حیدرآباد کے پھلیلی کے علاقے میں گھر بنوایا۔

مائی ویرو کولہی نے نے 2013 کے انتخابات میں پی ایس 50 حیدرآباد سے سابق صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن کے خلاف الیکشن لڑ کر ایک نئی تاریخ رقم کی اور انہوں نے خالی ہاتھ مگر جرئت مندی سے الیکشن لڑا۔

ویرو کولھی کو2009 میں ڈگلس فریڈم ایوارڈ ملا، انہیں کسانوں اور اقلیتی نچلے طبقے کے حقوق کے لیے کام کرنے پر بھارت، جرمنی اوربرطانیہ سمیت دیگر ممالک کی جانب سے بھی سراہا گیا۔

ویرو کولھی کے خاندان نے نجی جیل کی اسیری برداشت کی، جبری مشقت جھیلی اور تذلیل کا بھی سامنا کیا لیکن اس باوجود انہوں نے اپنے جیسے 4 ہزار کسانوں‘ بھٹہ مزدوری کو جبری مشقت سے نجات دلائی جو آج معاشرے کے باعزت شہری ہیں۔

ویرو کولھی کی خدمات کو دیکھتے ہوئے ریاست پاکستان نے بھی انہیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا اور وہ زندگی کے آخری ایام تک اقلیتی مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کے لیے لڑتی رہیں۔

زندگی کا زیادہ عرصہ بھٹوں، زمینوں اور جبری مشقت میں کام کرنے میں گزارنے کی وجہ سے ویرو کولھی کو دمے کی بیماری لاحق ہوگئی تھی جو بڑھتی عمر میں شدت اختیار کرتی گئی۔

ویرو کولھی 2019 سے شدید علیل تھیں اور غربت کی وجہ سے اپنا علاج کروانے سے بھی قاصر تھیں، حکومت اور مقامی انتظامیہ نے بھی انہیں نظر انداز کردیا تھا جب کہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی ان کی خبر نہیں لی۔

ویرو کولھی 31 اکتوبر 2023 کو چل بسیں اور ان کے انتقال پر سندھ بھر کے سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کے رہنماؤں نے اظہار افسوس کیا۔